شہباز شریف کو عدالت سے فٹافٹ ملک سے باہر جانے کی اجازت ملنے کے بعد مفاہمتی اور مزاحمتی گروپوں کی بحث چھڑ گئی تھی۔ ایئرپورٹ پر حکومت کی ہدایات کے تابع ایف آئی اے نے بہرحال اگلے 24 گھنٹوں میں اس بحث اور شہباز شریف کے لندن جانے کے ارمانوں کا خون کر دیا۔
لیکن زخمی ہونے کے باوجود مزاحمتی بمقابلہ مفاہمتی کا اکھاڑہ ابھی بھی جما ہوا ہے۔ شہباز شریف کے جیل سے نکلتے ہی مفاہمتی گروپ دوبارہ سے زندہ ہو گیا۔ اخبارات میں کالم لکھوائے گئے کہ کیسے شہباز شریف اپنی نظریاتی مستقل مزاجی سے ہٹے نہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے دو دو ہاتھ کرنے کی بجائے ہاتھ ملانے پر ابھی بھی قائم ہیں۔
اس کے ساتھ مزاحمتی گروپ پر جس کی قیادت مبینہ طور پر مریم نواز کرتی ہیں، ملامتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ کہا گیا کہ کیسے ن لیگ پر مسائل کے پہاڑ جوشیلے نادانوں نے توڑے۔ صحافیوں پر حملوں سے لے کر شریف خاندان پر بننے والے مقدموں تک تمام پرانی ایف آئی آرز مزاحمتی گروپ کے خلاف دوبارہ سے جاری کر دی گئیں۔ یوں لگا کہ جیسے شہباز شریف کی ضمانت نہیں ہوئی ان کو پلیٹ میں رکھ کر وزارت عظمیٰ پیش کر دی گئی ہو۔
خوشیوں کا یہ میلہ فی الحال خاموش ہو گیا ہے کیوں ایئرپورٹ پر ایف آئی اے کے افسران کی جانب سے جیسے شہباز شریف کو اڑان پکڑنے سے روکا گیا وہ کافی ہتک آمیز واقعہ ہے۔ لیکن یہ ہتک صرف محسوس کرنے والوں کے لیے ہے۔ شہباز شریف کی ضمانت پر بھی یہی عمل کیا گیا تھا۔ جج صاحبان کا ضمانت کا فیصلہ ایک قانونی جنگ میں تبدیل کر دیا گیا۔
حکومت نے اپنی نیت واضح کر دی کہ وہ مجبوری کے باوجود شریف خاندان کو رگیدنے سے باز نہیں آئے گی۔
سلمان شہباز کو لندن سے بار بار فون کرنے پڑے تاکہ وہ ضمانتی جنہوں نے ضمانت کی ضمانت دی تھی، اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔ جواب میں ان کو فکر نہ کرنے کا کہا گیا اور بتا دیا گیا کہ چار، پانچ دن میں یہ معاملہ طے ہو جائے گا۔
اگرچہ ویسا ہی ہوا لیکن شہباز شریف کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ مفاہمت کے ذریعے اپنا ہر قانونی حق حاصل کرنے کے لیے ان کو گھسیٹ گھسیٹ کر چلنا ہو گا۔ ملک سے باہر جانے کی عدالتی اجازت کا انجام بھی ایسا ہی ہوا۔ دوبارہ سے پیغامات بھجوانے پڑ رہے ہیں کہ جناب آپ نے تو آرام دہ پرواز کا یقین دلوایا تھا مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور بن گیا۔
مفاہمت یقیناً مزاحمت سے بہتر ہے۔ اس میں درد سری بھی کم ہے اور مسائل کے حل کے راستے بھی متعدد۔ مزاحمت سے مخاصمت بڑھتی ہے، خواہ مخواہ کی دشمنیاں پل جاتی ہیں۔ انقلابی پن ایسے ملک میں نہیں چل سکتا جہاں پر نظام کا ایک پتا بھی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔
شہباز شریف یہ کہہ سکتے ہیں کہ مفاہمت کامیاب رہی ہے۔ حمزہ شہباز اپنے والد کی طرح اب آزادی کی سانس لے رہے ہیں۔ احد چیمہ کی بندش بھی مفاہمت کے ذریعے ختم ہو گئی۔ اگلے دنوں میں مختلف مقدمات کی کارروائیوں سے بھی سیاسی سہولت پیدا ہو گئی۔ بالکل ویسے ہی جیسے جہانگیر خان ترین نے مصالحانہ رویہ اپناتے اُسی وزیر اعظم سے میٹنگ کر لی جو ایک طویل عرصے سے ان سے نالاں تھے۔
لیکن مفاہمت مسلسل تذلیل اور ذہنی کوفت سے آزاد ہونی چاہیے۔ مفاہمتی انداز اپنے بنیادی حقوق کی تلاش میں اپنانا احسن ہے لیکن اگر اس کوشش میں یہ حقوق مسلسل پامال ہوتے رہیں تو مفاہمت کی قیمت بھاری ہے۔ اسی طرح مزاحمت سے مراد دست و گریباں ہونا نہیں۔ نہ اس حد تک لڑائی کو بڑھانا ہے کہ ہر طرف خون بہنے لگے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے۔
اس زاویے سے دیکھیں تو ن لیگ نے مفاہمت زیادہ اور مزاحمت کم کی۔ شہباز شریف تمام تر لچک کے باوجود سالوں جیل میں پڑے رہے۔ جس جہدوجہد کو فخر سے بیان کرتے ہیں وہ ان کی جی سرکار کرنے والی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔ اب اگر ان کو ضمانت حاصل کرنے یا ملک سے باہر جانے کی عدالتی اجازت مفاہمت کے پھل کی طرح دِکھتی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے خود کو اس حد تک کمزور کر دیا کہ تمام تر ووٹ بینک رکھنے کے باوجود ان کو پچھلے دروازے سے بات چیت کرنے کو کارنامہ سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری طرف مزاحمتی سیاسی بیانیے نے ن لیگ کو بدترین حالات میں ایک نسب العین دیا۔ کارکنان کو متحد رکھا۔ لیڈران کی گردنیں نہیں جھکنے دیں۔ ضمنی انتخابات میں پارٹی کی مختلف حلقوں سے کامیابیاں ان ووٹروں کی امید کی مرہون منت ہیں جو شہباز شریف کے لندن میں علاج سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس منہ توڑ جواب سے پُرعزم رہے جو دیوار سے لگی ہر جماعت کی قیادت سے ممبران توقع کرتے ہیں۔
ویسے بھی پاکستانی کی سیاسی ثقافت میں ہر وقت میٹھی اور گول مول باتیں کرنے والے لیڈر پسندیدہ نہیں ٹہرتے۔ عمران خان اس کی واضح مثال ہیں۔ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور کبھی کبھار نواز شریف، آج کل مریم نواز۔ جس کسی نے بھی اپنے مفادات، حقوق و اہداف کے حصول کے تحفظ کے لیے کھل کر بات کی اور کسی ایک موقف پر ڈٹ گیا، ووٹرز نے اس کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دی۔
اس کو آپ مزاحمت نہیں کہہ سکتے۔ یہ درست ہے کہ دبنگ انداز سے بولنے والوں کی تاریخ بھی اندر خانے معاہدوں سے اٹی پڑی ہے۔
مگر ہر وقت ستو پیتے رہنا، ٹھس ہو کر بیٹھ جانا اور اپنے ساتھ ہونے والی بدترین زیادتیوں کو بے کسی سے ہضم کرنا کمزوری کی وہ نشانیاں ہیں جو شخصی اور سیاسی عزت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔
ویسے بھی شہباز شریف کا مفاہمتی نظریہ اپنی جماعت کی پیپلز پارٹی پر کیے جانے والی تمام تنقید کو زائل کر دیتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اگر انہوں نے سینیٹ انتخابات میں لچک دکھائی یا پی ڈی ایم کی طرف سے استعفوں کے معاملے پر اڑ گئے تو کیا ہوا؟ کیا شہباز شریف نے انہی حلقوں سے ہاتھ ملا کر اپنے لیے باہر جانے کا بندوبست نہیں کیا؟ کیا نواز شریف انہی حلقوں کی مدد سے ملک سے باہر نہیں گئے؟ ایسا رد عمل بالکل جائز ہو گا۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس وقت کوئی جماعت مزاحمت کا علم اٹھانے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اگر فرق ہے تو محض اس نظریے کا کہ مفاہمت کے نام پر نہ ختم ہونے والی تذلیل برداشت نہیں کرنی چاہیے۔ عزت کو برقرار رکھتے ہوئے حقوق طلب کرنا کوئی بڑی مزاحمت نہیں مگر اس سے کم پر گزارا کرنا مفاہمت نہیں کہلایا جا سکتا۔
اس کے چند ایک اور نام ہیں جو اس کالم میں لکھنا مناسب نہیں۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔