یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے
مارگلہ نیشنل پارک میں لگی آگ تو بجھ چکی لیکن یہ سوال بھی تک سلگ رہا ہے کہ یہ آگ کون، کیوں اور کیسے لگاتا ہے؟ آگ کی جتنی وجوہات عوام کو بتائی جاتی ہیں، وہ جھوٹ ہیں۔ اصل کہانی کچھ اور ہے۔ جانتے سب ہیں لیکن بتاتا کوئی نہیں۔
آگ لگتے ہی متعلقہ ادارے پہیہ ایجاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سیاح حضرات کی بے احتیاطی سے جنگل میں آگ بھڑکتی ہے اور ہم نے یہاں بار بی کیو پر پابندی عائد کر دی ہے اس لیے اب آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے۔
اس بار مارگلہ میں آگ لگی تو 26 مئی کو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ٹویٹ کی کہ آگ غالباً سگریٹ سے لگی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں آگ لگی تھی وہاں تک پہنچنے کا یہ سگریٹ یا بار بی کیو والے سیاح تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آگ کی وجہ اگر سیاحوں کی بے احتیاطی ہو تو آگ سڑک کے ساتھ ساتھ لگنی چاہیے، لیکن آگ تو بہت اوپر لگتی ہے جہاں نہ سگریٹ ہوتی ہے، نہ سیاح ہوتا ہے اور نہ ہی بار بی کیو ہوتا ہے۔
تو کیا یہ ٹمبر مافیا کی منظم کارروائی ہوتی ہے جو درخت کاٹتا ہے اور پھر ثبوت مٹانے کے لیے آگ لگا دیتا ہے؟ یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ مارگلہ کے جنگل کے جن حصوں میں آگ لگتی ہے وہاں ایسے درخت کم ہیں جن کے لیے ٹمبر مافیا اتنا بڑا رسک لے۔ دوسرا کاٹے گئے درختوں کو یہاں سے لے جانا بھی آسان نہیں۔ یہاں کوئی دریا بھی نہیں بہتا جس میں درخت کاٹ کر پھینک دیا جائے اور آگے مطلوبہ مقام پر نکال لیا جائے۔
یہ تو ممکن ہی نہیں کہ درخت کاٹ کر کوئی نیچے اسلام آباد کی طرف لائے گا۔ ہزارہ کی جانب بھی پیر سوہاوہ کے پاس چیک پوسٹ ہے۔ پھر یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ کوئی دریائے ہرو کے اطراف کے ویرانے میں درخت کاٹنے کی بجائے میلوں دور مارگلہ کے ہائی سکیورٹی زون میں درخت کاٹنے تشریف لائے اور یہاں سے ٹرک بھر کر دریائے ہرو کی طرف واپس جائے۔
پھر کیا مقامی لوگ ایندھن کے لیے جنگل کاٹتے ہیں اور پھر آگ لگا دیتے ہیں؟ یہ بات انتہائی محدود پیمانے پر جزوی طور پر ٹھیک ہو سکتی ہے، تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مقامی لوگوں کی ایندھن کی ضروریات کے لیے جھاڑیاں کافی ہوتی ہیں اور یہی ان کی ترجیح ہوتی ہیں۔ جنگل جھاڑیوں سے بھرا پڑا ہے اور انہیں کاٹنے کے بعد نشان مٹانے کے لیے آگ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر یہ کہ ایندھن کی زیادہ ضرورت تو سردیوں میں ہوتی ہے لیکن آگ مئی، جون میں لگتی ہے۔ اگر ایندھن کے حصول کے لیے آگ لگائی جاتی ہو تو آگ موسم گرما کی بجائے جاڑے کی یخ رت میں لگنی چاہیے۔
اب اگر سیاح، بار بی کیو، سگریٹ، ٹمبر مافیا اور ایندھن کا حصول آگ کی وجہ نہیں تو پھر آگ کون لگاتا ہے، کیوں لگاتا ہے اور کیسے لگاتا ہے؟ ٹھہریے! میں آپ کو ساری کہانی سناتا ہوں۔
اپریل، مئی اور جون کو مارگلہ میں خشک دورانیہ کہا جاتا ہے۔ اس میں ہلکی سی بے احتیاطی سے آگ لگنے کا ڈر رہتا ہے۔ کافی سال پہلے اس خشک موسم کی وجہ سے آتشزدگی کے کچھ واقعات بھی ہوئے۔ کچھ لوگوں نے درخت بھی کاٹے۔ ان پر گرفت ہوئی تو انہوں نے رد عمل میں آگ بھی لگائی۔ اب سی ڈی اے نے ایک پالیسی تشکیل دی کہ گوکینہ، تلہاڑ وغیرہ کے تین چار سو مقامی لوگوں کو اس دورانیے میں تین ماہ کے لیے عارضی طور پر بھرتی کرلیا جائے اور انہی کی یہ ذمہ داری ہو کہ وہ جنگل کی نگہداشت کریں اور اسے آگ سے بچائیں۔
بظاہر یہ اچھی پالیسی تھی لیکن یہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ جو لوگ بھرتی ہو جاتے ہیں وہ تو حفاظتی ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن جو نہیں ہو پاتے وہ ردعمل میں دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے آگ لگا دیتے ہیں کہ اچھا ہمیں نہیں رکھا تو اب کروا لو حفاظت جنگل کی۔ بھرتی میرٹ پر نہ ہو تب بھی ناراض عناصر موجود ہوتے ہیں اور بھرتی میرٹ پر ہو تو جن کی سفارش نہ مانی جائے وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ مقامی دھڑے بندیاں ہیں۔ ایک دھڑے کے زیادہ لوگ بھرتی ہو جائیں تو دوسرا دھڑا ان کو ناکام بنانے پر تل جاتا ہے۔ یہ پالیسی اب ایک عذاب بن چکی ہے اور اس سے جان چھڑانا مشکل ہوچکا ہے۔ عارضی بھرتیاں جاری رکھیں تو مصیبت، بند کر دیں تو اس سے بھی بڑی مصیبت۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ لوگ پہاڑ میں آگ لگاتے وقت دو چیزیں مد نظر رکھتے ہیں۔ یہ ایسی جگہ منتخب کرتے ہیں جہاں پہنچنا مشکل ہو تاکہ آگ بجھانا آسان نہ ہو۔ دوسرا یہ نمایاں جگہ کا انتخاب کرتے ہیں تا کہ آگ لگتے ہی اسلام آباد میں دیکھی جاسکے، شور مچ جائے اور متعلقہ اداروں کو عبرت حاصل ہو کہ ہمارے لوگ بھرتی نہ کرنے کا یہ انجام ہے۔
سگریٹ یا ماچس کی ڈبیا سے کوئی آگ نہیں لگاتا کیونکہ اس صورت میں فوری دھواں اٹھ سکتا ہے اور پکڑے جانے کا ڈر ہوتا ہے جب کہ آگ لگانے والے کے پیش نظر وہاں سے فرار ہونا بھی ہوتا ہے، چنانچہ یہ جیوٹ کا ایک ’سیبا‘ رسا لے کر آتے ہیں۔ اس کے ایک سرے کو آگ لگا کر اسی وقت بجھا دیتے ہیں، لیکن یہ سلگتا رہتا ہے۔ یہ اس سلگتے رسے کو بچھا دیتے ہیں اور اس کے دوسرے سرے پر دیا سلائی کی تیلیاں رکھ دیتے ہیں اور وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ جب رسہ سلگتے سلگتے وہاں تک پہنچتا ہے جہاں دیا سلائی کی تیلیاں رکھی ہوتی ہیں تو آگ لگ جاتی ہے۔ لیکن جب آگ لگتی ہے تو آگ لگانے والا وہاں سے بہت دور جا چکا ہوتا ہے۔
جنگل جب تک سی ڈی اے اور وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ میں ’سینڈ وچ‘ بنا رہے گا، جلتا رہے گا۔ دونوں اداروں میں باہمی تناؤ اب راز کی بات نہیں رہی۔ عالم یہ ہے کہ وائلڈ لائف کا کل سٹاف محض 60 لوگوں پر مشتمل ہے جن میں سے 10 کنٹریکٹ پر ہیں اور 50 ڈیلی ویجرز ہیں۔ اس کی افرادی قوت بڑھانے کی بجائے سی ڈی اے ہر سال سینکڑوں لوگ تین ماہ کے لیے عارضی طور پر بھرتی کرتا ہے اور ان لوگوں کی کشمکش میں ہر سال جنگل جل اٹھتا ہے۔ حالانکہ اتنے ہی بجٹ میں مستقل بنیادوں پر وائلڈ لائف کا عملہ دگنا کیا جا سکتا ہے۔
مارگلہ کا جنگل نیشنل پارک ہے جس کی دیکھ بھال کے لیے اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس کے تحت ایک بورڈ قائم ہے ۔سی ڈی اے کا جنگل میں کیا کام؟ یہ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ہے، سوال یہ ہے کہ جنگل میں کون سی ڈویلپمنٹ ہوتی ہے؟ کیا یہاں لومڑیوں کے لیے کوارٹر، تیندووں کے لیے ہائی وے اور ہرنوں کے لیے پلازے تعمیر کرانے ہیں؟
اصول بڑا واضح ہے شہر سی ڈی اے کا، جنگل وائلڈ لائف کا۔ یہ اصول جب تک پامال ہوتا رہے گا خرابی دور نہیں ہو گی۔ جنگل جلتا رہے گا۔