اسلام آباد اور گرد و نواح میں جناتی تبدیلیاں

عمران خان کی حکومت آبپارہ اور پنڈی سے بہترین تعلقات کی وجہ سے مکمل طور پر محفوظ سمجھی جا رہی ہے۔ مگر مولانا فضل الرحمان ایک بھونچالی سیاستدان کی صورت میں ایسے نمودار ہوئے ہیں کہ طاقتور حکومت کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔

2018 کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو متعدد حلقوں میں حیران کن شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ عمران خان کی سونامی کی زد میں آ کر ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں۔ (اےا یف پی)

جب سے بنی گالہ کی پہاڑی پر تجلیات کا نزول ہوا ہے اور اسلام آباد میں نیک لوگوں کی حکمرانی قائم کی گئی ہے تمام ملک ایک جناتی کیفیت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ یعنی آپ سوچتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے۔ تاریخ کچھ اور بتاتی ہے اور حال کی اڑان کسی اور رخ نظر آتی ہے۔ غیر معمولی تبدیلیوں کی بھرمار ہے۔ ہمارے بیشتر مشاہدے، توقعات اور تجربات آندھی میں تنکے کی طرح ہر روز اڑ اور بکھر رہے ہیں۔

لیڈروں کے مشہور خوائص اور قابلیت کے بارے میں قصے کہانیوں کو ہی لے لیجیے۔ کیا سے کیا ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ سے پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا چھپا ہوا دایاں ہاتھ سمجھے جاتے تھے۔ تمام تر مسجدی، مدرسی، تبلیغی اور دینی قوت رکھنے کے باوجود انہوں نے اپنی جماعت اور ذاتی اقتدار کی کرسی کو ڈگمگاتی کشتیوں میں سنبھال کے رکھا۔ عموماً ہر حکومت کے ساتھ رہے۔ افغانستان اور جہاد جیسے موضوعات پر جب جب ریاست نے ان کو خط لکھا تب تب وہ دوڑے چلے آئے۔ عمران خان نے اپنی ذاتی مخالفت کو جب حضرت مولانا پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ میں تبدیل کیا تو بہت سے لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ مولانا ڈیزل سے چلتے ہیں۔ جس دن یہ ترسیل بند ہو گئی اس دن ان کا تمام کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ 2018 کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو متعدد حلقوں میں حیران کن شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے وہ عمران خان کی سونامی کی زد میں آ کر ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں۔

 مگر اب دیکھیے کہ عمران خان کی حکومت مرکز اور صوبوں میں قائم ہے اور آبپارہ اور پنڈی سے بہترین تعلقات کی وجہ سے مکمل طور پر محفوظ بھی سمجھی جا رہی ہے۔ مگر مولانا فضل الرحمان پارہ پارہ ہونے کے بجائے ایک بھونچالی سیاستدان کی صورت میں ایسے نمودار ہوئے ہیں کہ طاقتور حکومت کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک ایسا سیاستدان جو بیچ کا رستہ نکالنے کا ماہر اور کھڑکی کے ذریعے اندر سے دروازے کھولنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا اس وقت حزب اختلاف کے افضل ترین معیار پر پورا اتر رہا ہے۔ نہ ڈگمگا رہا ہے، نہ پسپا ہونے کی طرف مائل ہے۔

بڑی جماعتوں سے حکومتوں میں حصہ مانگنے والی جماعت بڑے بڑے لیڈران کو روزانہ شرمندہ کر کے حوصلہ دیتی ہے۔ جن کی گردنوں میں سریا تھا وہ مولانا فضل الرحمان کی ریڑھ کی ہڈی کی سختی کے باعث پریشان نظر آ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جو خود کو پاکستان کی سب سے منظم دینی و سیاسی جماعت کا تاج پہناتی ہے اس وقت جے یو آئی کے سامنے ایسے ہی ہے کہ جیسے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سری لنکا کے کھلاڑیوں کے مد مقابل حاضر ہونے کے باوجود غائب تھی۔ اس وقت جیل سے باہر تمام سیاستدانوں میں سے صرف ایک موجودہ نظام کا حقیقی مدِمقابل نظر آتا ہے اور وہ ہے مولانا فضل الرحمان۔ اس وقت حقیقی اپوزیشن کا تصور جے یو آئی کی امامت میں نیت باندھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ تمام تر صعوبتیں کاٹنے والے نواز شریف کو بھی مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے برابر یا شاید ایک قدم پیچھے رہ کر آگے بڑھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں بھی جو نظریاتی طور پر مذہب اور سیاست کو علیحدہ رکھنا چاہتی ہیں مولانا کی چارہ سازی کی محتاج ہیں۔ کیا جناتی تبدیلی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ ایسی ہی صورت حال نواز شریف، شہباز شریف اور عمران خان کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کے نقاد ان کی تقریر اور سوچ کے حوالے سے ان کو ہمیشہ سے ہدفِ تمسخر بناتے رہے ہیں۔ بولنے چالنے میں گھبراہٹ اور گہری سوچ سے اجتناب کے الزامات سہتے سہتے میاں محمد نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم تو بنے مگر ان کے نقادوں نے یہ تصور قائم رکھا کہ میاں صاحب منہ کھول کر اپنا نقصان کرنے میں بے نظیر ہیں۔ اپنے آخری دور حکومت میں ان کی سرکاری ملاقاتوں میں لکھے ہوئے نکات کے ذریعے بات چیت پاکستان تحریک انصاف کے لیے موثر پروپیگنڈے کا پسندیدہ زاویہ بنا۔ پاکستانی عوام کو یہ باور کروایا جاتا رہا کہ نواز شریف دو سطریں بھی تحریری ہدایت کے بغیر نہیں پڑھ سکتے۔ فی البدیہہ سخن وری و فنِ بیان تو ناممکن ہے۔

ان کے مقابلے میں عمران خان کی قابلیت، ان کے گرج دار بیانات اور تھرڈ ڈویژن والی مگر آکسفورڈ سے حاصل کی ہوئی ڈگری کے حوالوں سے بیان کی جاتی تھی۔ یہ بتایا جاتا تھا کہ عمران خان دانشمندی اور معلومات کا سر چشمہ ہیں اور سیدھے سادے انداز میں الفاظ ادا کر کے قوم کی روح کو بیدار کرنے کی یکتا خصوصیت رکھتے ہیں۔

زبانی کلام کے زاویے سے میاں شہباز شریف نے بھی خوب شہرت کمائی۔ کئی زبانوں پر عبور، لمبی انقلابی نظموں کی زیر زبر کی غلطی کے بغیر پر جوش ادائیگی، انگشت شہادت کی ہوا میں کاٹ اور مشت سے سامنے دھرے مائیکس کی تباہی نے شہباز شریف کو بہترین مقرر کی شہرت سے نوازا۔

 مگر اب دیکھیے کیا ہو رہا ہے۔ شہباز شریف کی فصاحت و بلاغت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ گلا پھاڑ کر بولنے والا اب بیان جاری کرنے سے پہلے کمرہ جماعت کی پچھلے بینچ پر بیٹھے ہوئے بچے کی طرح درجنوں مرتبہ ساتھیوں کی طرف دیکھتا اور جملہ تراشنے میں ان کی مدد کا طلب گار نظر آتا ہے۔ نا مکا گھومتا ہے نا انگلی گردش میں ہے۔ کئی زبانیں بولنے والا قومی زبان میں قومی سیاست اور جماعت کی احتجاجی پالیسی کے بارے میں چار الفاظ ادا کرنے میں ہفتے بلکہ مہینے لگا دیتا ہے۔

شہباز شریف کے سیاسی رقیب مگر تقریر اور تکرار میں ان کے ہم عصر، وزیراعظم عمران خان کی شہرت میں بھی حیرت انگیز تغیر رونما ہوا ہے۔ کہاں ان کی تقاریر اور انٹرویوز صحافتی سوغات کی طرح سنے اور دیکھے جاتے تھے۔ کہاں ان کے نعروں اور بیانات سے گہرے اندھیروں میں امید کی کرن رونما ہوتی تھی اور کہاں نوبت یہ ہو گئی ہے کہ ہر دوسرے روز اپنے ادا کیے ہوئے جملوں سے ملک، قوم، حکومت اور جماعت کو خفت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ نہ تاریخ ان کے قابو میں ہے نہ سفارت کاری۔ دین کے معاملات بھی زبان سے پھسل کر کیا سے کیا بن جاتے ہیں اور پھر اپنے کہے کو واپس لینے کی تو بس عادت ہی ہو گئی ہے۔ وہ لیڈر جو الفاظ کی سیڑھی کو استعمال کر کے طاقت کی چوٹی پر پہنچا اب اپنے بیانیے کی زد میں آ کر روزانہ بھس بن جاتا ہے۔

اور وہ نواز شریف جس کی زبان کو زنگ آلودہ اور سوچ کو دائمی تساہل کا شکار قرار دیا جاتا تھا اب ایسے نکتے پر کھڑا ہے کہ جہاں سے اس کا بیان کیا ہوا ایک لفظ طاقت کے موجودہ نظام پر رعشہ طاری کر دیتا ہے۔ اس کی زبان بندی کے لیے منصفی کے اصولوں کو روندھنا معمول بن چکا ہے۔ جس کی پرچی سے پڑھی ہوئی تحریر کو تحقیر آمیز طعنوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا اب چار جملے بول کر توپوں کے رخ موڑ دیتا ہے۔ وہ جو الفاظ سے عاری تھا اب الفاظ سے سیاسی شکار کا ماہر ہو گیا ہے۔

نواز شریف نے پانچ مہینے تک کچھ نہ بول کر اپنی جماعت اور ملکی سیاست میں ابہام اور سرگوشیوں کی نہ ختم ہونے والی صنعت کو جنم دیا اور پھر دو منٹ بات کرکے مستقبل کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو یکسر ختم بھی کر دیا۔ یقیناً عزت اور ذلت خدا وند تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اسیری میں قدرت، طاقت میں ذلت، چھوٹے عہدے میں بڑا قد اور بڑی کرسی میں چھوٹا پن ایسی تبدیلیاں ہیں جو اصولوں کو پامال کرنے سے جنم لیتی ہیں۔ ہوا کے ساتھ بدلنے والے سمت اور پَر دونوں کھو دیتے ہیں۔ بادِ مخالف کا سامنا بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ یہ جناتی حقائق ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ