یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اسرائیل پر حکمران اتحاد کو ’دائیں بازو‘ کی جماعتوں کا اتحاد کہا جاتا ہے۔ اس اتحاد میں شامل جماعتیں کٹر مذہبی رجحانات رکھتی ہیں، جن میں قوم پرست، قومی انتہا پسند اور مذہبی انتہا پسند عناصر جمع ہوتے ہیں۔
اسرائیل اور مغربی میڈیا ان کو جن انداز سے مخاطب کرتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں کسی غیر یہودی کا وجود بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
ان جماعتوں کا حکمران اتحاد کسی کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کسی بھی طرح سے سیاسی ’شاک‘ نہیں کہا جاتا۔ اسرائیل میں یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی دائیں بازو یا ’رائٹ‘ کی حکومت رہی ہے، تنہا ایک جماعتی نہیں رہی۔ اس میں مذہبی اعتبار سے کٹر اور انتہا پسند عناصر موجود رہے ہیں۔ یہ عناصر اپنی قدامت پسندی میں دنیا کی کسی بھی مذہبی جماعت سے زیادہ سخت ہیں۔ اسی لیے روسی آرتھوڈاکس بھی ان کے بعد کسی شمار میں آتے ہیں۔
اسرائیلی معاشرے میں کسی سیاسی اتحاد کے لیے یہ کمزور ترین شناخت ہے۔ یہ بات بھی پورے وثوق سے کہی جاتی ہے کہ نتن یاہو جس حکومت کی سربراہی کر رہے تھے، وہ معاشرتی اعتبار سے بری ترین حکومت تھی۔ مسٹر یاہو خود بھی سب سے آخری اور مجبوری کا آپشن تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ گذشتہ 20 سال سے حکمران رہے۔
اس وقت نتن یاہو کے بعد اہم شخصیت نفتالی بینیت ہیں جو’بی بی‘ کے اپوزیشن دور میں ان کے مشیر خاص اور دور اقتدار میں ان کے طاقتور وزیر دفاع تھے، تاہم اب اقتدار کی غلام گردشوں نے انہیں اپنا حقیقی چہرہ دکھانے کا موقع فراہم کیا تو انہوں نے وزیر دفاع سے ’سیاسی جارحیت‘ کا سفر ایک ہی جست میں طے کرتے ہوئے اپنے سابقہ ’باس‘ کا بستر گول کر دیا ہے۔
اب وہ نتن یاہو کو ہٹانے کے اتنے درپے ہیں کہ انہوں نے اعتدال پسند یائر لاپید کے ساتھ اقتدار میں شراکت کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پہلے بینیت اور پھر لاپید وزیر اعظم بنیں گے۔ تاہم ابھی یائر لاپید کو اس اتحاد کا باقاعدہ اعلان کرنا ہے۔
نفتالی بینیت غربِ اردن میں یہودی آبادکاریوں کے سخت ترین حامی ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو سیاسی بحران سے بچانے کے لیے اپنے مخالف (اعتدال پسند یائر) سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔
نتن یاہو نے اسی نکتے کو بنیاد بناتے ہوئے طعنہ انگیز بیان دیا کہ ’پھر آبادکاری کا خیال کون رکھے گا؟‘ اور اگر نتن یاہو صرف اکا دکا ہی ارکان کو اس طرح کے بیانات سے اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے تو نفتالی بینیت کے خوابوں پر پانی پھر سکتا ہے۔
یہ صورت حال زبان حال سے پکار رہی ہے کہ اسرائیل میں جمہوریت کے ’آئرن ڈوم‘ میں دراڑ کسی اور نہیں نے خود نتن یاہو کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ سیاسی رفیق نفتالی نے ڈالی ہے۔
اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کی خاطر اسرائیل میں طے پانے والی اس متوقع ’سیاسی شادی‘ کا انجام نہ جانے کیا ہوگا؟ تاہم فی الوقت تو مبارک، سلامت کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔
اسرائیل میں نظام کی بجائے چہرے کی تبدیلی سے دنیا کے لیے شاید کسی حوالے سے خیر کا پہلو نکل سکے۔ کم از کم اب اتنا ہوا ہے کہ کسی کو بھی اسرائیل دیکھنے کا اتفاق ہو کہ یہ کیسا ملک ہے، اسے معلوم ہو گا کہ یہ ہمیشہ ہی ایسا تھا اور رہے گا۔ اس ملک نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے اپنے اصل کردار اور شناخت کو پوشیدہ رکھا۔
دنیا کے سامنے اسرائیل کا تعارف ایک لبرل ملک کا ہے، جس میں دعوے کی حد تک جمہوریت ہے۔ جن لوگوں کا شعور ابھی زندہ ہے، وہ دیکھ سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ نتن یاہو اور ان کے شراکت داروں کو جمہوریت کے علمبردار کہا جاتا ہے۔
ان میں موشے یعلون، نفتالی بینیت، ایلات شیکڈ اور دوسرے لوگ شامل تھے۔ یہ جمہوریت کے ’لیجنڈ‘ ہیں۔ تاہم ان کے رویوں اور عمل میں کسی جوہر کی کمی ہے تو وہ جمہوریت ہی ہے۔
بہت سالوں سے یہ ہوتا رہا ہے، اسرائیل کو سمجھنے کے لیے مغرب نے چند افسانے تراش رکھے تھے۔ صہیونیوں نے بار ہا یہ باور کرایا تھا کہ وہ ریگستانوں میں بہار لے آئیں گے اور ہر طرف لہلہاتی فصلیں کھڑی ملیں گی۔ فلسطینیوں کے لیے یہ زمین ایسے ہوگی جس کے رہنے والے نہیں رہے اور رہنے والوں کو کہیں زمین نہیں ملے گی۔
یہ وہ پیچیدہ اور الجھی ہوئی تصویر تھی جو ہسبارہ (پروپیگنڈا) کے زور پر مغرب کو دکھائی جاتی رہی ہے۔ اس کی بنا پر اسرائیل نے ان ساری جنگوں کو درست قرار دیا جو اس نے عربوں سے لڑیں۔ اسی نے فوجی قبضے کو درست ثابت کیا۔ اسی طرح سے اس نے حقوق انسانی بھی مسلسل پامال کیے اور جنگی جرائم کیے ہیں۔
ہر طرح کے پروپیگنڈے کے باوجود ان قصے کہانیوں کو سچ ثابت نہیں کیا جا سکا۔ آپ اسرائیل کی تاریخ کا کوئی بھی صفحہ پلٹ کر دیکھ لیں۔ اب تو خود مغربی خطے کے لوگ بھی اسے مکمل غیراخلاقی اور غیرانسانی تاریخ قرار دے رہے ہیں۔
اسرائیل میں رائٹ والوں کو 1970 کے عشرے تک کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس سے پہلے تک لیبر پارٹی کی حکومت رہی تھی۔ سب سے پہلے یپائی پارٹی تھی جس نے مفروضے کی حد تک ترقی پسند کہلانے والے عناصر سے مل کر 1960 کے عشرے میں لیبر پارٹی بنائی تھی۔ اس پارٹی نے فلسطینیوں کا بہت زیادہ خون بہایا، ان کی نسلی صفائی کی جاتی رہی۔ ان کی وجہ سے ہی آج فلسطینی اتنے برے حال میں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تو عالم یہ ہے کہ نتن یاہو کے حکام بھی اپنے ظلم اور مکمل غیر انسانی اقدامات میں کسی طرح سے کم نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رویے کا ماضی سے گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل میں رائٹ اور لیفٹ کا جو بھی فرق ہے وہ ان کے سیاسی فلسفے کی حد تک ہے۔ نتائج اور فلسطین دشمنی میں دونوں ایک جیسے ہیں۔
کچھ لوگ افسانوی کرداروں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کو ’پیس کیمپ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا موازنہ رائٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ مسلسل پروپیگنڈا کرتے ہیں اور جنون سے بڑھ کر کرتے ہیں کہ اسرائیل اب بھی ایک جمہوری ریاست ہے، اس پر حکمران قوتیں جمہوری ہیں۔ یہ ایسا مفروضہ ہے جس کی بنیاد پر مغرب کی حکومتیں اسرائیل کو موقع دیتی ہیں کہ وہ جیسے چاہے فلسطینیوں سے معاملہ کرتا رہے۔
رائٹ کے رہنما نتن یاہو، نفتالی اور ان کے شرکت دار ہیں جو یورپ کے لیے سخت ندامت کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل کے باوجود یورپ، اسرائیل کا مکمل حمایتی ہے۔ یہ سب مل کر امریکہ کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہنے دیتے کہ جس امن کی وہ بار بار بات کرتا ہے، اس پر ٹھوس کام کر سکے۔ مغرب کو اس دن کا انتظار ہے جب اسرائیل پر کم ضدی اور کم ڈھیٹ قسم کے لوگ حکمرانی کریں۔ اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ یہ لوگ خون خرابہ کس قدر کریں گے۔
اسرائیل پر حکمرانی کرنے والی لیبر حکومتیں 1940 اور 1950 کے عشروں میں بھی رہی ہیں۔ ان کے رہنما اضحاک رابین، شمعون پیریز اور ایہود باراک وغیرہ رہے ہیں۔ ان میں کسی نے بھی کسی ایک موقع پر بھی یہ اشارہ نہیں دیا کہ اسرائیل قبضہ ختم کرنے کے لیے تیار ہے یا وہ فلسطینیوں کو ان کی حاکمیت حقیقت میں دے رہا ہے۔ ایسا تو ان کا ایجنڈا کبھی بھی نہیں رہا۔
اس بات پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں کہ رابین کو امن کا نوبیل انعام دے دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ 1993 میں اوسلو امن معاہدے پر دستخط کر دیئے تھے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس معاہدے میں فلسطینیوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا گیا تھا۔
اس معاہدے کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے کو مختلف زونز میں تقسیم کر دیا۔ ان پر اسرائیلی فوج کا قبضہ مضبوط بنا لیا گیا۔ انہیں بے حیثیت القابات، وی آئی پی کارڈز اور سرمایہ دیا گیا تاکہ سارے کھیل میں اسرائیل کا ساتھ دیں۔
رابین کو قتل کرنے والا رائٹ ونگ جنونی یہودی تھا۔ اس قتل کی وجہ یہ تھی کہ اوسلو معاہدے میں فلسطینی پرچم اور قومی ترانہ لہرائے اور بجائے گئے۔
اب اگر نتن یاہو کا نیا سیاسی حریف انہیں اعتدال پسند اتحادیوں کو ساتھ ملا کر فضا میں اپنا ہاتھ لہراتا ہے اور دو ریاستی حل پر کسی بھی بحث کو ملتوی کرنے کا اعلان کرتا ہے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ یہ معمول کا کام ہے۔ اسرائیل کا حکمران طبقہ عشروں سے ایسی ہی سیاست کرتا آیا ہے۔
اس میں بھی زبردست تضاد ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی بالکل ناجائز اور غیر قانونی خیمہ بستیوں کی تعمیر کے لیے دو ریاستی حل ایک کامیاب حربہ تھا۔ یہ لیبر پارٹی کی پالیسیوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔
رائٹ کی جماعتیں بےاثر تھیں۔ لیبر ہی ساری قوت رکھتی تھی۔ اب رائٹ کی حکمرانی ہے۔ اعتدال پسند اور لیفٹ کی جماعتیں بھی اس کے ساتھ ہیں اور آنے والے دنوں میں دونوں مل کر فلسطینیوں کا ناطقہ بند کیے رکھنا چاہتی ہیں۔