یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کریں
اہلیت اور کارکردگی کا تو اب سوال نہیں ہے کہ یہ راز اب ایک جہان کو معلوم ہو چکا۔ سوال یہ ہے کیا ہمارے حکمران انسانی معاشرے میں رہنے کے بنیادی آداب سے بھی بے نیاز ہو چکے ہیں؟ سیاست کے سینے میں دل تو پہلے ہی نہ تھا، اب کیا آنکھ کی مروت بھی سونامی کی نذر ہو گئی؟
ریلوے کا حادثہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، سانحہ ہے۔ لیکن اس سے بڑا سانحہ وزرائے کرام کے ارشادات ہیں۔ معلوم نہیں کون سا آسیب ان کے تعاقب میں ہے، جہاں پرسہ دینا ہو یہ وہاں رجز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور جہاں تعزیت کرنا ہو وہاں یہ طعنوں سے کام لیتے ہیں۔ یہ غزل سرا ہوتے وقت اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ گلی میں ڈھولک بج رہی ہے یا صف ماتم بچھی ہے۔ یہ اتنا سا تکلف کرنے کے بھی روادار نہیں کہ سماج میں درجنوں لاشے دیکھ کر آنکھوں میں مصنوعی آنسو ہی لے آئیں۔
پنجابی فلموں کی ہیرو کی طرح یہ ہر وقت گنڈاسا ہاتھے میں لیے پھرتے ہیں اور زبان پر ایک ہی نعرہ ہے: ’ہم نے چھوڑنا کسی کو نہیں!‘
نتیجہ یہ ہے کہ جو سامنے آتا ہے اس کی پشت لال اور ہری ہو جاتی ہے۔
ارشاد ہوا: ’اللہ کا شکر ہے اس سال کا یہ پہلا حادثہ ہے۔‘
یہ معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ معاشرہ اپنے 55 لاشوں کو رو رہا تھا اور بارگاہ اقتدار سے شکر ادا ہو رہا تھا کہ یہ اس سال کا پہلا حادثہ ہے۔ ایسا سونامی آیا ہے فکر اور شکر کے مقامات کی ترتیب بدل کر رہ گئی ہے۔ دکھ کی گھڑی میں آدمی معقول بات نہ کر سکے تو خاموش ہی رہ لے۔
دوسرے صاحب بولے تو وہاں بھی باتوں سے پھول جھڑنے لگے۔ کہا، ’اگر مرنے والے میرے استعفے سے واپس آ سکتے ہوں تو میں استعفیٰ دینے کو تیار ہوں۔‘ کیا دکھ کی گھڑی میں ایک وفاقی وزیر کا اسلوب گفتگو یہ ہونا چاہیے تھا؟ کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ جب جناب عمران خان ریلوے کے حادثے پر استعفے طلب کیا کرتے تھے کیا اس وقت استعفے کے بعد مرنے والے زندہ ہو جایا کرتے تھے؟ کیا دنیا میں جہاں جہاں وزرا ایسے مواقع پر مستعفی ہوتے ہیں وہاں استعفے کی خبر سن کر مرنے والے زندہ ہو جاتے ہیں؟ کوئی ہے جو ان سے دست بستہ گزارش کرے کہ عالی جاہ استعفیٰ مت دیجیے لیکن از رہ کرم ز بان کو تھام لیجیے کہ زبان کا گھاؤ بہت گہرا ہوتا ہے۔ روح تک گھائل کر دیتا ہے۔
ایک اور صاحب بروئے کار آئے اور معاملہ ’پچھلی حکومت‘ پر ڈال دیا۔ ملک الشعراء کے بس میں ہو تو مسلم دنیا پر چنگیزخان کے حملے کو بھی ’پچھلی حکومت‘ کی سازش قرار دے دیں اور یہ سوچ کر مروتا بھی نادم نہ ہوں کہ ان پچھلی حکومتوں میں خود موصوف کس صف میں ہوا کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قابلیت اور کارکردگی تو ہمارے سامنے ہے۔ ریلوے چلانے میں ناکامی کے انعام میں یہاں لوگ وزیر داخلہ بنا دیے جاتے ہیں۔ جنہیں سپریم کورٹ طلب کرے اور وہ مستعفی ہو کر جان چھڑائیں انہیں ریلوے کی وزارت دے دی جاتی ہے۔ جن سے کرپشن کے الزام میں صحت کی وزارت لی جائے انہیں پارٹی کا اہم ترین عہدہ دے دیا جاتا ہے۔
جون کی گرمی میں، جب درجہ حرارت 46 کو چھو رہا ہو، بچوں کے سکول کھول دیے جاتے ہیں اور باقی کی کسر لوڈ شیڈنگ پوری کر دیتی ہے۔ گرم موسم کےبارے میں ایک رپورٹر نے سوال کیا تو پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے جس تند لہجے میں جواب دیا وہ کسی بھی نجیب انسان کو زیب نہیں دیتا کجا یہ کہ تعلیم کا وزیر یہ لہجہ اختیار کرے ۔ یہی بات تحمل سے اور شائستگی سے اس سے بہتر اسلوب میں کہی جا سکتی تھی۔
ایک وزیر محترم کے ایک نا تراشیدہ بیان کی وجہ سے پی آئی اے کو اربوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ اس کا نام رنگ روڈ سیکنڈل میں بھی لیا جاتا ہے لیکن کوئی اس سے استعفی طلب نہیں کرتا کیونکہ شہر میں دستور بن چکا کہ کرپشن صرف وہ ہوتی ہے جو ’پچھلی حکومتوں‘ نے کی ہوتی ہے۔ جس مسئلے کا صاحب نوٹس لیتے ہیں وہاں بگولوں کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔ پولیس میں تو ایسی اصلاحات لائی گئی ہیں کہ سب سے بڑے صوبے کا چیف جسٹس کہتا ہے کہ ریٹائر منٹ کے بعد مجھے اور میرے اہل خانہ کو پولیس سے خطرہ ہو گا۔
کوئی دکھ سا دکھ ہے؟ کس چاؤ اور امید نے لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیے تھے اور آج عمران خان برف کا وہ باٹ بن چکے ہیں جو دھوپ میں رکھا ہو۔ طر ز حکومت میں کوتاہی کی اصلاح کسی بھی وقت ہو سکتی ہے لیکن قوم کے شعور اجتماعی کو جو گھاؤ زبان سے دیے جا رہے ہیں ان کا شاید مداوا ممکن نہ ہو۔حزب اختلاف سے حساب برابر کرنے کے لیے دو چار شعلہ بیان ترجمان یا وزرا رکھ لینا قابل فہم ہے لیکن کوئی ایک تو ایسا ہو جسے دھیمے اندا زسے، تحمل سے بات کرنا آتا ہو۔ یہ کون سی دلاوری ہے کہ جہاںز خم دیکھو نمک لے کر پہنچ جاؤ۔
اہلیت اور کارکردگی جیسے تکلفات سے یکسربے نیازی ہی سہی لیکن کیا اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ انسانوں کے معاشرے میں رہنے کے کچھ رسمی سے آداب کا خیال رکھ لیا جائے۔ مرہم کی توفیق نہ ہو تو زخم پر نمک بھی نہ چھڑکا جائے، لاشوں پر کھڑے ہو کر رجز نہ پڑھے جائیں اورلفظوں کا کوڑا برسانے سے پہلے دیکھ لیا جائے کہ خوشی کا سماں ہے یا دکھ کی گھڑی۔
استعفیٰ بے شک نہ دیں۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ کے استعفے سے کون سا مرے ہوئے لوگوں نے زندہ ہو جانا ہے۔ لیکن آپ اتنی بندہ پروری تو کریں کہ بس چپ کر جائیں۔ جو مرنے سے بچ گئے ہیں ان کی روح کو تو گھائل نہ کریں ۔ آپ کی عین نوازش ہو گی۔
مکرر عرض ہے کہ اس حکومت کو حزب اختلاف کی کوئی حاجت نہیں۔ اس کے لیے اس کے وزرا ہی کافی ہیں جنہوں نے ساری قوم کو ن لیگ سمجھ لیا ہے۔