پنجاب کے پرائس کنٹرول اینڈ کموڈٹی مینیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے صوبے میں قائم 17 صارف عدالتوں کو عوامی فائدے سے زیادہ کروڑوں روپے کے فنڈز کا ضیاع قرار دے کر بند کرنے اور لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے ڈسٹرکٹ ججز کو صارف عدالتوں کا اختیار دینے کی سمری کابینہ کو بھجوا دی۔
پیر کو بھجوائی گئی سمری میں کہا گیا کہ ’ڈائریکٹوریٹ آف کنزیومر پروٹیکشن کونسل پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں موجودہ صارف عدالتوں میں مجموعی طور پر آٹھ ہزار 381 کیس دائر ہوئے جن پر 98 کروڑ 19 لاکھ 88 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ اس سے نشاندہی ہوتی ہے کہ کیسوں کی تعداد بہت کم جبکہ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔‘
اسسٹنٹ ڈائریکٹر تحفظ صارف کونسل پنجاب راؤ محمد افضل کے مطابق ’ہم نے سمری صوبائی کابینہ کو بھجوا دی ہے تاکہ پنجاب کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005 میں ترمیم کر کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں مقامی عدالتوں کے ججز کو صارفین کی شکایت سن کر فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔
’اس طرح متاثرین کی درخواستیں بھی زیادہ سنی جا سکیں گی اور سرکاری اخراجات میں بھی واضح کمی آئے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005 میں پاس ہونے کے بعد صوبے بھر کے مختلف شہروں میں صارف عدالتیں الگ سے قائم کی گئی تھیں، لیکن وہاں متاثرہ شہریوں کی درخواستوں کے مقابلے میں اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
’مجموعی طور پر ایک کیس پر ایک لاکھ 17 ہزار 167 روپے خرچ ہو رہے ہیں، کیسز پر خرچ رقم خزانے پر بھاری بوجھ بن رہی ہے۔
’مالی سال 23-22 میں دائر 1864 مقدموں میں سے 1514 حل کیے گئے۔ اس دوران کیسز پر 15 کروڑ 20 لاکھ روپے کا بجٹ خرچ کرنا پڑا۔‘
تحفظ صارف کونسل کے ریکارڈ کے مطابق صارف عدالتیں لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، راولپنڈی، سرگودھا، فیصل آباد، ساہیوال، ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، رحیم یار خان، بہاولنگر، لیہ، بھکر، میانوالی اور منڈی بہاؤالدین میں کام کر رہی تھیں۔
صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی او ایس پی او پنجاب کے سربراہ شاہنواز خان کے بقول ’موجودہ صارف عدالتوں کا قیام حکومت کا بہترین اقدام تھا۔ میں نے خود دو بار رجوع کیا اور ایک ماہ کے اندر ریلیف ملا۔
’ہمارے مشاہدے کے مطابق ان عدالتوں سے شکایت کنندہ کو سو فیصد انصاف مل رہا ہے۔ دوسرا یہاں صرف صارفین کی شکایات سنی جاتی ہیں۔ کوئی بھی خود درخواست دے کر انصاف لے سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا، ’جہاں تک درخواستوں کے مقابلے میں اضافی سرکاری اخراجات کا سوال ہے تو عوامی مسائل حل کرنے کے لیے خرچ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
شاہنواز کے مطابق ’ضلعی عدالتوں میں صارف عدالتیں قائم ہونے سے ایک تو لوگوں کو جانے میں آسانی ہو گی۔ دوسرا انہیں وہاں وکلا سے قانونی معاونت کی سہولت بھی دستیاب ہو گی۔
’اگر ایسا کرنے سے شکایات کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اچھا اقدام ہو گا، لیکن حکومت کو جلد اور بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔‘
راؤ افضل کے خیال میں مقامی عدالتوں میں صارف عدالتوں کی منتقلی سے سرکاری اخراجات کم ہو جائیں گے اور لوگوں کو انصاف بھی بروقت ملنے کا امکان ہے۔
صارفین کے کیسوں کی پیروی کرنے والے قانون دان عدنان فیض کے بقول، ’ضلعی عدالتوں پر پہلے ہی کیسوں کا بوجھ زیادہ ہے۔ صوبے بھر میں زیر التوا کیسوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
’ایسے میں اگر صارف عدالتوں کا کام بھی مقامی عدالتوں سے لینے کا قانون بنایا جاتا ہے تو صارفین کو بھی بروقت انصاف نہیں مل سکے گا۔‘