نیویارک کی ایک خاتون اپنے گھر کے باہر آن لائن ریٹیلر کمپنی ایمازون کی جانب سے بھیجے گئے اُن سینکڑوں پارسلز کو دیکھ کر ششدر رہ گئیں جن کا انہوں نے آرڈر ہی نہیں دیا تھا۔
نیویارک کے مقامی نیوز چینل ’ڈبلیو آئی وی بی‘ کی رپورٹ کے مطابق پانچ جون کو جلیان کینن اس وقت اضطراب کا شکار ہوگئیں جب ان کے گھر کے سامنے والے پورچ میں ایمازون بکسز کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ ان پر ان کا نام بھی درج نہیں ہے۔
چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والی کینن نے نیوز چینل کو بتایا کہ ان ڈبوں کے اندر ہزاروں سلیکون بریکٹ موجود تھے جو فیس ماسک میں استعمال ہوتے ہیں۔
کینن نے فوری طور پر ایمازون سے رابطہ کیا تاکہ انہیں غلطی سے آگاہ کیا جائے اور انہیں درست پتے پر بھیجا جائے لیکن انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انہوں نے این بی سی نیوز کو بتایا: ’جب میں نے پہلی بار ان پارسلز کو وصول کرنا شروع کیا تو میں نے کمپنی کو فون کرکے انہیں واپس کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے مجھے وضاحت دی کہ یہ میرے ہی ہیں کیونکہ انہیں میرے گھر پر پہنچایا گیا تھا۔‘
کمپنی نے انہیں بتایا تھا کہ ان پارسلز پر موجود نام ایمازون اکاؤنٹ میں رجسٹرڈ نہیں ہے اور ان کی ٹریکنگ معلومات سے بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا۔
اس دوران کینن کو ان کے گھر پر 100 پیکیجز وصول ہوچکے تھے، جس میں کچھ بڑے پارسل تھے، جو انہیں یو پی ایس اور یو ایس پوسٹل سروس کے ڈیلیوری ٹرکوں کے ذریعے موصول ہوئے۔
ہر پارسل پر کینن کے گھر کا پتہ درج تھا لیکن ان پر ان کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔ حیران کن طور پر ان پارسلز پر واپسی کا پتہ یا بھیجنے والے کا نام بھی موجود نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چار بچوں کی والدہ کینن نے مزید بتایا: ’پہلے مجھے یقین تھا کہ یہ کوئی فریب ہے یا ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے ویئر ہاؤس کو خالی کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چونکہ ساری چیزیں ایک جیسی تھیں تو مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کوئی معاملہ ہو سکتا ہے۔‘
ایمازون کو کی گئیں متعدد کالوں کے بعد کینن نے کہا کہ کمپنی نے آخرکار اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور اصل آرڈر کا سراغ لگا لیا تاکہ انہیں مزید آڈر وصول نہ ہونے پائیں۔
تاہم انہیں اب بھی ٹرانزٹ میں شامل پارسلز کو وصول کرنا پڑے گا اور پہلے سے ترسیل شدہ ناگہانی سامان سے بھی خود نمٹنا پڑے گا۔
اس خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سامان کو مقامی ہسپتالوں میں بچوں کے لیے ماسک کی سجاوٹ کے لیے کٹ کے طور پر عطیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کٹ کے ہر ایک پیک کے ساتھ ماسک بریکٹ بھی شامل ہیں تاکہ اس فالتو سامان کے ساتھ بچے کچھ تخلیقی یا مثبت کام کرنے کی کوشش کر سکیں۔
کینن نے ایمازون سے کہا کہ وہ اس منصوبے کے لیے درکار اضافی مواد عطیہ کریں اور جب کہ کمپنی نے ابتدائی طور پر ان کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا، وہ کمپنی کی جانب سے ابھی تک کسی حتمی ردعمل کی منتظر ہیں۔
انہوں نے این بی سی نیوز کو بتایا: ’میں اس سامان کو مثبت کام میں لگانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میرے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میں اس سامان کی مدد سے ان کو لیموں سے شربت بنانا سیکھا رہی ہوں اور کچھ اسی طرح کے مزید کام۔‘
کینن نے ڈبلیو آئی وی بی کو یہ بھی بتایا کہ اگر وہ ان کے لیے جگہ نہ ڈھونڈ پائیں تو وہ ماسک بریکٹ کو عطیہ کر دیں گی۔
دی انڈیپینڈنٹ نے کمپنی کی رائے جاننے کے لیے ایمازون سے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent