امریکہ: کیا ٹرمپ پیدائشی حقِ شہریت ختم کر پائیں گے؟

ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے دلیل دی ہے کہ نظام کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور امریکی شہری بننے کے لیے سخت معیار ہونا چاہیے۔

امریکی منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 05 دسمبر 2024 کو گرین ویل، نیو یارک میں ٹائلز سینٹر میں فاکس نیشن کے پیٹریاٹ ایوارڈز کے دوران خطاب کر رہے ہیں (مائیکل ایم سینٹیاگو/ اے ایف پی)

امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی پیدائشی شہریت کے حق کا قانون ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ امیگریشن کو محدود کرنے اور امریکی ہونے کے معنی کو نئے سرے سے بیان کرنے کے اپنے انتخابی وعدے پورے کر سکیں۔

لیکن اس پالیسی کو روکنے کی کسی بھی کوشش کو سخت قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پیدائشی شہریت کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ خود بخود امریکی شہری بن جاتا ہے۔

یہ کئی دہائیوں سے نافذ العمل ہے اور اس کا اطلاق سیاحتی یا طالب علم ویزا پر ملک میں یا امریکہ میں کسی ایسے شخص سے پیدا ہونے والے بچوں پر ہوتا ہے جو اپنے آبائی ملک واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ ہر ملک میں نہیں ہوتا اور ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے دلیل دی ہے کہ نظام کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور امریکی شہری بننے کے لیے سخت معیار ہونا چاہیے۔

لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ آئین کی 14 ویں ترمیم میں درج ایک حق ہے، اسے تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہوگا اور اگر یہ ممکن بھی ہے تو یہ ایک برا خیال ہے۔

ٹرمپ کے بیانات اور اس قانون کے خاتمے کے امکانات

ٹرمپ نے حقِ پیدائشی شہریت کے بارے میں اتوار کو این بی سی کے پروگرام ’میٹ دی پریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پیدائشی شہریت ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کےہ ’ہم اسے ختم کرنے جا رہے ہیں کیونکہ یہ مضحکہ خیز ہے۔‘

ٹرمپ اور حق پیدائشی شہریت کے دیگر مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کو غیر قانونی طور پر امریکہ آنے یا ’برتھ ٹورازم‘ میں حصہ لینے کی ترغیب ملتی ہے جس میں حاملہ خواتین خاص طور پر بچے کو جنم دینے کے لیے امریکہ میں داخل ہوتی ہیں تاکہ ان کے بچے اپنے آبائی ممالک واپس جانے سے پہلے شہریت حاصل کرسکیں۔

امیگریشن کم کرنے کے لیے کام کرنے والی تنظیم نمبرز یو ایس اے کے ریسرچ ڈائریکٹر ایرک روارک کا کہنا ہے کہ ’صرف سرحد پار کرنے اور بچہ پیدا کرنے سے کسی کو شہریت کا حق نہیں ملنا چاہیے۔‘

یہ تنظیم ان تبدیلیوں کی حمایت کرتی ہے جن کے تحت والدین میں سے کم از کم ایک کے لیے مستقل قانونی رہائشی یا امریکی شہری ہونا لازمی ہوگا تاکہ ان کے بچوں کو خود بخود شہریت مل سکے۔

دوسروں کا کہنا ہے کہ پیدائشی شہریت ختم کرنے سے ملک کو شدید نقصان پہنچے گا۔

امیگریشن کے حامی کیٹو انسٹی ٹیوٹ میں اقتصادی اور سماجی پالیسی سٹڈیز کے نائب صدر الیکس ناؤرسٹا نے کہا کہ ’ہمارے بڑے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے لوگ شہری ہیں، غیر قانونی طور پر پسماندہ طبقے کے نہیں ہیں۔ امریکی شہریت کے حقِ پیدائش کے باعث تارکین وطن اور ان کے بچوں کا بہتر طور پر انضمام اور ہم آہنگی ممکن ہوتی ہے۔‘

2019 میں مائگریشن پالیسی انسٹیٹیوٹ کے مطابق 55 لاکھ بچے، جو 18 سال سے کم عمر کے تھے، امریکہ میں والدین میں سے کم از کم ایک غیر قانونی  فرد ساتھ رہتے تھے، جو کہ امریکہ کی بچوں کی مجموعی آبادی کا سات فیصد بنتی ہے۔ ان بچوں کی اکثریت امریکی شہریت رکھتی تھی۔

غیر جانبدار تھنک ٹینک نے 2015 میں صدر کے لیے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اگر پیدائشی شہریت کو منسوخ کر دیا جاتا ہے تو ملک میں غیر قانونی طور پر لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا، جس سے ’ایک خود ساختہ طبقہ پیدا ہو جائے گا جسے نسلوں تک سماجی رکنیت سے محروم رکھا جائے گا۔‘

قانون کیا کہتا ہے؟

خانہ جنگی کے بعد، کانگریس نے جولائی 1868 میں 14 ویں ترمیم کی توثیق کی۔ اس ترمیم میں سیاہ فام لوگوں سمیت سبھی کے لیے شہریت کی یقین دہانی کرائی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

14ویں ترمیم میں کہا گیا: ’تمام افراد جو امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں یا وہاں قدرتی طور پر شہری بنے ہیں اور جو اس کی دائرہ اختیار کے تحت آتے ہیں، وہ امریکہ کے شہری اور اس ریاست کے شہری ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔ کوئی بھی ریاست ایسا کوئی قانون نہیں بنائے گی یا نافذ نہیں کرے گی جو امریکہ کے شہریوں کے استحقاق یا مراعات کو کم کرے۔‘

لیکن 14 ویں ترمیم نے ہمیشہ ہر ایک کو پیدائشی شہریت نہیں دی۔ مثال کے طور پر، یہ 1924 تک نہیں تھا جب کانگریس نے آخر کار امریکہ میں پیدا ہونے والے تمام مقامی امریکیوں کو شہریت دی۔

پیدائشی شہریت کی تاریخ میں ایک اہم کیس 1898 میں سامنے آیا، جب امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ چینی تارکین وطن کے ہاں سان فرانسسکو میں پیدا ہونے والے وونگ کم آرک امریکی شہری تھے کیونکہ وہ امریکی ریاستوں میں سے ایک میں پیدا ہوئے تھے۔ وفاقی حکومت نے انہیں بیرون ملک سفر کے بعد اس بنیاد پر ملک میں دوبارہ داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تھی کہ وہ چینی اخراج ایکٹ کے تحت شہری نہیں ہیں۔

لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1898 کا کیس واضح طور پر ان بچوں پر لاگو ہوتا ہے جو قانونی طور پر امریکہ آنے والے والدین سے پیدا ہوئے ہوں، لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا یہ ایسے بچوں پر لاگو ہوتا ہے جو غیر قانونی والدین سے پیدا ہوں یا مثلاً ایسے بچے جن کے والدین سیاحتی ویزے پر ہوں۔

اینڈریو آرتھر، جو سینٹر فار امیگریشن اسٹڈیز کے فیلوز ہیں، نے کہا: ’یہ اس بارے میں سب سے اہم کیس ہے۔ دراصل، یہ اس پر واحد کیس ہے۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک ایسا قانونی سوال ہے جس پر زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ واضح ہے، لیکن حقیقت میں یہ بہت بڑا ہے۔‘

امیگریشن پابندیوں کے کچھ حامیوں نے دلیل دی ہے کہ 14 ویں ترمیم میں ’اس کے دائرہ اختیار کے تابع‘ کے الفاظ امریکہ کو ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت دینے سے انکار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے خود 2023 کے اپنے اعلان میں اسی زبان کا استعمال کیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہوتے ہیں تو وہ پیدائشی شہریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ کیا کر سکتے ہیں اور کیا یہ کامیاب ہوگا؟

ٹرمپ نے اتوار کو اپنے انٹرویو میں یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کیسے پیدائشی شہریت کو ختم کریں گے۔

جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ وہ ایگزیکٹو ایکشن کے ذریعے 14ویں ترمیم کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں، تو ان کا جواب تھا: ’ٹھیک ہے، ہمیں اسے تبدیل کرنا پڑے گا، ہمیں شاید لوگوں کے پاس واپس جانا پڑے گا۔ لیکن ہمیں اسے ختم کرنا ہوگا۔‘

یہ پوچھے جانے پر کہ آیا وہ ایگزیکٹو آرڈر کا استعمال کریں گے، ٹرمپ نے کہا کہ ’اگر یہ ہمارے اختیار ہوا تو تو ایگزیکٹو ایکشن کے ذریعے۔‘

انہوں نے اپنی انتخابی مہم کی ویب سائٹ پر 2023 کی ایک پوسٹ میں بہت ساری تفصیلات دیں۔

اس میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنی صدارت کے پہلے دن ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کریں گے، جس میں یہ واضح کیا جائے گا کہ وفاقی ایجنسیوں کے لیے ’یہ ضروری ہوگا کہ والدین میں سے کم از کم ایک امریکی شہری یا قانونی مستقل رہائشی ہو تاکہ ان کے مستقبل کے بچے خودبخود امریکی شہری بن سکیں۔‘

ٹرمپ نے لکھا کہ ایگزیکٹو آرڈر میں واضح کیا جائے گا کہ ’امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کے بچوں کو پاسپورٹ، سوشل سکیورٹی نمبر جاری نہیں کیے جائیں گے، یا وہ ٹیکس دہندگان کی مالی اعانت سے چلنے والے کچھ فلاحی فوائد کے اہل نہیں ہوں گے۔ یہ یقینی طور پر قانونی چارہ جوئی میں ختم ہوگا۔

کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے ناؤراسٹا نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ پیدائش کے ذریعے شہریت کو ایگزیکٹو آرڈر سے ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن ٹرمپ شاید عدالتوں کے ذریعے اس کا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں ان کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ وہ تقریبا ایک دہائی سے اس طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں۔ پہلے جب وہ صدر تھے تو انہوں نے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ قانون اور جج ان کے اس قانونی نظریے کے بالکل مخالف ہیں کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کے بچے شہری نہیں ہیں۔‘

ٹرمپ پیدائشی شہریت کو ختم کرنے کے لیے کانگریس کو ایک قانون منظور کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں ایک قانونی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اس سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ