مدیحہ افتخار نے اداکاری کی دنیا میں اس وقت قدم رکھا تھا، جب ابھی نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار نہیں ہوئی تھی اور پاکستانی ٹی وی ڈراما اس وقت انڈین سوپ ڈراموں سے نبرد آزما تھا۔
مدیحہ افتخار نے شہرت اپنی اداکاری سے حاصل کی تھی، یہ سوشل میڈیا سے پہلے کا دور تھا جب فن کار کو محنت کرنا پڑتی تھی۔ سالہا سال کام کرنے کے بعد انہوں نے کام سے وقفہ لیا اور شادی کرکے ملک سے باہر منتقل ہوگئیں۔
اب رواں برس ان کی واپسی ہوئی تو انہوں نے آتے ساتھ ہی اے آر وائی کے دو ڈراموں ’غیر‘ اور ’بے بی باجی کی بہوویں‘ میں اپنی آمد کا اعلان دو انتہائی منفی کرداروں سے کیا۔
پاکستانی ٹیلی ویژن ڈرامے میں مثبت اور منفی کرداروں کی اپنی مخصوص جہتیں ہوتی ہیں اور ان میں کرداروں کی مقبولیت کا دارومدار فنکار کی اپنی کارکردگی سے جڑا ہوا ہوتا ہے، ایک عام سا کردار صرف فنکار کی جاندار اداکاری سے بہت مقبول ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی ایک اچھا کردار بےجان اداکاری کی وجہ سے گمنام رہ جاتا ہے۔
مدیحہ افتخار نے ان دونوں کردار میں جان ڈالی، ایک میں پھوپی بن کر سازش کی اور دوسرے میں پھوپی کی بیٹی بن کر سازشیں کی۔ ان کی بےساختگی اور سخت انداز نے ناقدین کو ان کی تعریف پر مجبور کیا اور آج ہم نے سوچا کہ انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کی ملاقات ان سے کروا ہی دی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میرا ان سے پہلا سوا یہی تھا کہ ملک بھر کی جو پھوپھیاں ان سے ناراض ہوگئی ہیں، اب وہ ان کا کیا کریں گی؟
جس پر مدیحہ نے جواب دیا کہ ’وہ والی پھوپی تو وہ بنی نہیں ہیں جو اِدھر کی اُدھر لگا دیتی ہے۔ وہ تو اپنے مفاد کے لیے کھیل کھیل رہی ہے، جیسے ورغلا کر زہر کھانے پر آمادہ کرنا ایسا ہی تھا، کیونکہ وہ ایسا چاہتی تھی، اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کی باتوں میں نہیں آجانا چاہیے کہ اس میں آکر کوئی انتہائی قدم اٹھا لے۔‘
منفی کردار کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی ایسا کردار کیا جائے تو لوگ باتیں سناتے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کی کافی تعریف ہو رہی ہے، شاید اس لیے کہ انہوں نے کئی سال مثبت کردار کیے ہیں، البتہ سوشل میڈیا پر کافی برا بھلا کہا گیا ہے۔
بقول مدیحہ: ’مجھے نہیں معلوم کہ لوگ ڈراموں کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیتے ہیں، آخر کار وہ ڈراما ہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ڈراموں میں عورت ہی سازشیں کرتی دکھائی دیتی ہے، اگر ترک ڈرامے دیکھے جائیں، انڈین ڈرامے دیکھ لیں، سازش کا جال عورت ہی بنتی ہے۔ یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں ہوتا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے، لیکن پھر عورت ہی عورت کی دوست بھی ہوتی ہے، ’میں نے کچھ ایسی کہانیاں دی تھیں لیکن وہ منظور نہیں ہوسکیں، کیونکہ یہ رائے یہ بن چکی ہے، اب اس رائے کو بدلنے میں وقت تو لگے گا۔‘
’غیر‘ میں اپنے کردار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو ساڑھیاں پہنی ہیں اور جو لینز لگائے ہیں، وہ عوام میں مقبول ہو رہے ہیں۔ ’مجھے تحریم کو ایسا انداز دینا تھا کہ وہ چالاک نظر آئے، تو اس لیے لینز کے اس رنگ کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے کافی سخت کردار بنا اور لوگ پسند کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ انہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ ناگن کا کردار کرسکتی ہیں، تو انہیں اچھا لگ رہا ہے کیونکہ وہ ایسا کردار کرنا چاہتی ہیں۔
مدیحہ نے مزید کہا کہ تحریم کا کردار جب سائن کیا تھا تب ہی اندازہ تھا کہ یہ مقبول ہوگا، البتہ اتنا زیادہ مقبول ہوگا یہ معلوم نہیں تھا۔ ’تحریم کا کردار منفی ہے اور برے کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ اس میں بھی ایسا ہی ہوگا، دوسرے ڈرامے میں تو وہ جیل چلی جاتی ہے لیکن اس میں جیل تو نہیں لیکن سزا تو ملے گی ہی۔‘
پاکستان میں گھریلو تشدد کے جو حالیہ بڑے واقعات ہوئے ہیں جن میں نامور خواتین اس کا نشانہ بنی ہیں، اس بارے میں مدیحہ کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے معاملات میں قانونی پیچیدگیاں کم کرکے مجرموں کو فوری سزا دلوائے کیونکہ ایسے کیسز جلد ختم نہیں ہوتے جس کا نقصان ہوتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اس کے علاوہ میں خواتین کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ بہت ساری عورتیں آج کے زمانے میں بھی برداشت کر رہی ہیں کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ میں یہاں سے اپنے ماں باپ کے گھر تو جا نہیں سکتی کہ بدنامی ہوگی۔۔ اور ماں باپ بھی کہتے ہیں کہ جہاں رہ رہی ہو، جیسے گزارہ کر رہی ہو کرو کیونکہ تمہارے آگے بچے بھی ہیں، میں صرف عورت کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ پلیز اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ صرف گھریلو تشدد ہی نہیں، اگر کسی کا شوہر نہیں بھی رہتا، تب بھی اسے مالی طور پر خود مختار بننے کی ضرورت ہے۔‘
سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب تو کام بھی فالوورز کی تعداد پر ملتا ہے، اس کا دباؤ ہم پر پڑتا ہے کہ ہم جو بھی کر رہے ہوں، وہ ہمیں پوسٹ کرنے کا دباؤ ہوتا ہے تاکہ ہمارے فالوورز بڑھیں، ’میں خود کبھی کبھی تھک جاتی ہوں، بےزار ہوجاتی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلے ایسا نہیں تھا، اب کام بھی فالوورز کی تعداد کے حساب سے ملتا ہے اور اس کا نقصان پوری انڈسٹری کو ہو رہا ہے، کام صلاحیت کی بنیاد پر نہیں ملتا۔ میں خود سٹار تھی، چھوڑ کر گئی، واپس آکر کام اس لیے ملا کہ مجھے لوگ جانتے تھے، مگر آج تو لوگ بہت جلد بھول جاتے ہیں۔‘
آخر میں مدیحہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی ڈراموں کو ساس بہو سے نکلنا ہوگا اور دیگر موضوعات کی جانب دیکھنا ہوگا، اب یہ بہت ہوگیا ہے۔