مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا کہ الیکشن نامنظور اور نئے الیکشن ہوں۔ پھر پیپلز پارٹی نے اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دی اور ہماری بات مانتے ہوئے یہ کہا کے موجودہ حکومت غیرمنتخب ہے اور اسے عوام نے نہیں کسی اور نے چنا ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کیا ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ ایسا لگتا ہے اپوزیشن کے یہ مطالبات سنجیدہ نہیں ہیں مگر اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر ان سے چند سوالات لازمی کرنے چاہیے۔
پہلا سوال یہ کہ اگر حکومت عوام کے ووٹ سے نہیں آئی ہے تو پھر پی پی پی نے پارلیمانی کمیٹی جو انتخابات کی تحقیقات کے لیے بنائی تھی اس کی چیئرمین شپ حکومت کے ایک وزیر کے حوالے کیوں کی؟ کیا پی پی پی بھی کسی ڈیل اور ڈھیل کی تلاش میں ہے۔ اور یہی مہارت دکھاتے ہوئے انہوں نے پچھلے الیکشن میں سندھ میں حکومت حاصل کی۔ سارے مک مکا والے یہ چاہتے ہی نہیں کے اس ملک میں شفاف الیکشن ہوں اور عوام کے ووٹ سے حکومت قائم ہو۔ آخر زرداری صاحب نے کچھ سوچ کر ہی نیب چیئرمین چنا ہوگا۔ وکیلوں اور عدالتوں کے زرداری صاحب ویسے بھی ماہر مانے جاتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ کے شاہد خاقان عباسی کے مطالبے کے مطابق اگر نئے الیکشن ہو جاتے ہیں تو ایسا کیا کمال ہوگا کے سارے مسائل حل ہو جایں گے؟ جب پی پی پی کی حکومت تھی تو نواز شریف ڈیل ڈھونڈ رہے تھے اور میمو گیٹ کے مقدمے میں اسی لیے پیش پیش تھے کے تیسرے امپائر کو ان سے پہلے جیسی محبت ہو جائے۔ اور ایسا ہی ہوا، الیکشن جیت کر وہ وزیراعظم بن گئے جس میں ووٹ اور گنتی دونوں نے مل کر اپنا جادو دکھایا- مگر جو وزیراعظم بھی ڈیل سے آتا ہے وہ پھر ڈیل سے نکل نہیں سکتا۔ چاہے وہ جونیجو ہوں، بینظیر ہوں، نواز شریف ہوں یا عمران خان۔
نواز شریف تین دفعہ وزیراعظم بن کر بھی یہ سبق نہ سیکھ سکے اور اب بھی یہی شک ہے کہ جیل میں بیٹھ کر بھی سبق نہیں سیکھا اور عدلیہ کو بیرون ملک سفر کی درخواست یہی عندیہ دے رہی ہے۔
چلیں ان کی بات مان لیتے ہیں اور نئے الیکشن کروا دیتے ہیں تو کیا ہوگا؟ یہی سارے لوگ جو آج اسمبلی میں ہیں وہی واپس اسمبلی میں آ جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ کوئی دوسرا لاڈلا آجائے گا۔ وہی آئی ایم ایف کا پیکج ہوگا، وہی مہنگائی کا طوفان ہوگا، وہی اسمبلی میں ایک طوفان بدتمیزی ہوگا جہاں عوام کے مسائل پر کم اور ذاتی لڑائیاں زیادہ ہوں گی۔ وہی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ اور ٹیکس نہ دینے والوں کے لیے ایمنسٹی پیکج ہوگا، اور وہی امراء کے لیے مراعات ہوں گی۔ یعنی کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
آج پاکستان کی سیاسی کشمکش میں ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ کرپشن نااہلی سے بہتر ہے۔ یعنی ایک نئے الیکشن میں عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کے وہ کرپشن کے ساتھ ہیں یا نااہلی کے۔ آپ اندازہ لگائیں کے موجودہ نظام ہمیں کہاں لے آیا ہے کے کوئی بھی راستہ لیں وہ ناکامی ہی کی طرف جاتا ہے۔