یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے
یوگنڈا اور ایتھوپیا نے بھی چار چار میڈل لے لیے لیکن ہمارے حصے میں ایک بھی نہیں آیا۔ اس ذلت اور توہین کے اسباب جاننے کی بجائے شور مچا ہے کہ دل جیت لیے صاحب، دل جیت لیے۔
اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ جنرل ( ر) عارف حسن کی 17 سالہ تاریخی جدوجہد کا یہ نقطۂ عروج ہے۔ ان کی کارکردگی پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس بار تو قوم کا دل جیت کر لائے، 15، 20 سال مزید خدمت کرنے دیجیے، قوم کے گردے اور پھیپھڑے بھی جیت لیں گے۔
خدمت کے جذبے میں یقینا کوئی کمی نہیں اب یہ حکومت اور قوم پر منحصر ہے وہ مزید کتنے عشرے ترقی کے اس حیران کن سفر کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔
اولمپکس میں دل جیتنا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے پہاڑوں جیسی استقامت چاہیے۔ بے شک پاکستان سپورٹس بورڈ پالیسی دے کہ سپورٹس باڈیز کے عہدے داران تیسری مرتبہ اپنے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتے اور بے شک سپریم کورٹ اس پالیسی کی توثیق کر دے۔
اس کے باوجود ایسوسی ایشن کے سربراہ کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے عہدے پر 17 سال فائز رہنا پڑتا ہے۔
چاہے اس کھینچا تانی میں معاملات اتنے خراب ہو جائیں کہ حکومت کو ایک الگ ایسوسی ایشن بنانا پڑ جائے اور انٹرنیشنل اولمپکس ایسوسی ایشن پاکستان پر پابندی لگانے کی دھمکی دے دے۔
اس بے مثال جدو جہد کے بعد یہ مبارک مرحلہ آتا ہے کہ قوم کا دل جیت لیا جائے۔
یہ دل جیتنا بچوں کا کھیل نہیں ہے، 17 سال محنتیں کرنا پڑتی ہیں۔ اس مدت کا سوچ کر پہاڑ کو پسینہ آ جائے۔
2004 میں جب اولمپکس ایسوسی ایشن کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) عارف حسن صاحب نے عہدہ سنبھالا تو وطن عزیز میں جمالی صاحب وزیر اعظم تھے۔
پھر شجاعت حسین آئے، شوکت عزیز آئے، میاں محمد سومرو آئے، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف آئے، میر ہزار خان کھوسو آئے، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی آئے، ناصر الملک آئے اور اب عمران خان کی حکومت ہے۔
یعنی اس عرصے میں 11 وزیر اعظم آ کر چلے گئے لیکن اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ کو ابھی تک ملک و قوم کی خدمت کرنا پڑ رہی ہے۔
ان کی استقامت پر قربان جائیے کہ وہ اسی جذبے سے ملک و قوم کی مزید خدمت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
قوم بھی ہر وقت رقت کی حالت میں رہتی ہے۔ ادھر کچھ ہوا نہیں، ادھر اس کا لہجہ گلوگیر ہو جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہاکہ بھائی عارف حسن آپ کو ہٹانا کسی حکومت کے بس کی بات نہیں تو آپ خود ہی ازرہ مروت اس منصب سے الگ ہو جایے۔
سب شدت جذبات میں غزل سرا ہیں کہ واہ صاحب واہ، دل جیت لیا کمال کر دیا۔ کوئی نہیں کہ رہا کہ عالی جاہ 17 سالوں سے آپ اس عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں، بتائیے تو سہی آپ کی کارکردگی کیا ہے؟
امریکہ اورچین کو تو چھوڑیے کیا موریطانیہ اور شام میں بھی یہ ممکن ہے کہ اس کارکردگی کے ساتھ کوئی صاحب 17 سال اس منصب پر فائز رہیں؟
کھیل مذاق نہیں ہوتا۔ کھیل کے میدان کی کارکردگی آپ کی مجموعی قومی کارکردگی کی ایک جھلک ہوتی ہے۔ زوال ہو یا کمال، وہ ہر شعبے کو لپیٹ میں لیتا ہے۔
چنانچہ دیکھ لیجیے امریکہ 113 تمغوں کے ساتھ سرفہرست ہے اور 88 تمغوں کے ساتھ چین دوسرے نمبر پر ہے اور ہم سب سے نیچے کھڑے ہیں۔
حتیٰ کہ شام اور گھانا جیسے ملک بھی میڈل لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن ہمارے ہاں وہی افیون بیچی جاتی ہے کہ تم جیتو یا ہارو سنو، ہمیں تم سے پیار ہے۔
ہم نے کھیلوں کا حشر نشر کر دیا ہے۔ کھیلوں کے محکمے موجود ہیں اور ان کے بجٹ بھی لیکن ان کے سربراہ میرٹ پر تعینات نہیں کیے جاتے۔
ہمارے ہاں عہدے اور مناصب اب طاقتور طبقات کو اکاموڈیٹ کرنے کا ایک بہانہ بن کر رہ گئے ہیں۔
کھیلوں کا ہی نہیں آپ مختلف شعبہ جات کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جو رجال کار ان شعبوں میں سربراہ تعینات کیے گئے ہیں ان کی متعلقہ شعبوں کی مہارت کا عالم کیا ہے اور ان کی اہلیت کا راز کیا ہے؟
سکندر مرا، جنرل ایوب، جسٹس کارنیلیس، جسٹس نسیم حسن شاہ، جنرل توقیر ضیا، ڈاکٹر ظفر الطاف اور نجم سیٹھی کا کرکٹ سے کیا تعلق لیکن وہ کر کٹ بورڈ کے سربراہان رہے۔
فیصل صالح حیات کا فٹ بال سے کیا تعلق تھا مگر وہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر رہے۔ مرحوم ظفر اللہ جمالی، جنرل عزیز، ایئر مارشل فاروق فیروز کا ہاکی سے کیا تعلق تھا لیکن وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سربراہ رہے۔
مئی 1948 سے اب تک کرکٹ بورڈ کے 34 سربراہوں میں سے چھ جرنیل، ایک ایئر مارشل، تین جسٹس، متعدد سیاست دان، بیوروکریٹ وغیرہ شامل رہے۔
ایک دفعہ صحافی کو بھی کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنا دیا گیا لیکن ایک بار بھی یہ منصب کسی کرکٹر کو نہیں مل سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1948 سے اب تک ہاکی فیڈریشن کے 24 صدور میں سے تین جرنیل، ایک بریگیڈیئر، پانچ ایئر مارشل تھے۔
مشتاق گورمانی سے ظفر اللہ جمالی تک کئی سیاست دان بھی اس منصب پر فائز رہے۔ لیکن ہاکی کے صرف دو کھلاڑیوں کو یہ اعزاز مل سکا اور اس کی وجوہات بھی سیاسی تھیں۔
قاسم ضیا پیپلز پارٹی کے رہنما تھے، پیپلز پارٹی کے دور میں نوازے گئے اور اختر رسول کا تعلق ن لیگ سے تھا، ن لیگ نے انہیں نواز دیا۔ میرٹ اس ملک میں کبھی تھا ہی نہیں۔
جب میرٹ پامال ہو جاتا ہے تو پھر میڈل نہیں جیتے جا سکتے۔ پھر صرف دل جیتے جاتے ہیں۔ زوال کے موسم بلاوجہ کسی معاشرے پر نہیں اترتے، یہ اس معاشرے کا نامۂ اعمال ہوتا ہے جو زوال کا انتساب بن جاتا ہے۔
کھیلوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہنڈیا بیچ میدان میں پھوٹ جاتی ہے اور سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ زوال نے صرف کھیلوں کا رخ کیا ہے اور باقی ہر طرف عروج کے جزیرے آباد ہیں۔ باقی شعبوں کا بھرم اس لیے باقی ہے کہ ان کی ہنڈیا ابھی میدان تک نہیں پہنچی۔
کیا ہوا جو ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت سات تمغے لے اڑا؟ مادیت پرستی کے اس دور میں اصل شہسوار تو وہ ہے جو دلوں کو جیت لے۔ آئیے بغلیں بجائیے کہ ہم نے 17 سال کی عظیم جدوجہد کے بعد دل جیت لیے۔