بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ روز حریت رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد جہاں سوگ کا سما رہا وہیں کچھ کچھ جگہوں پر نوجوانوں کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
سید علی گیلانی 92 برس کی عمر میں بدھ کی رات انتقال کر گئے، جس کے بعد بھارت مخالف مظاہروں کے ڈر سے سکیورٹی فورسز نے نہ صرف سری نگر میں ان کی رہائش گاہ کی جانب جانے والی سڑکیں بند کردیں بلکہ وادی میں انٹرنیٹ سمیت مواصلات کا نظام بھی بند کر دیا گیا۔
گیلانی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی میت کو تحویل میں لے لیا گیا اور انہیں صبح ہونے سے پہلے ہی حیدر پورہ میں ایک قبرستان میں دفنا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سید علی گیلانی کی خواہش تھی کہ ان کی تدفین سری نگر کے شہدا قبرستان میں ہو مگر ان کی اس آخری خواہش کو بھی روند دیا گیا۔
سینکڑوں اضافی فوجی جمعرات کو وادی میں تعینات رہے، خصوصاً ان سڑکوں پر جو مزاحمتی تحریک کے پائے کے لیڈر سید علی گیلانی کے گھر کی طرف جاتی تھیں۔
یکم ستمبر کی رات ساڑھے 10 بجے سوشل میڈیا اور خبروں سے متعلق گروپس میں سید علی گیلانی کی موت کی خبروں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ گذشتہ کچھ عرصے میں ایسی غیر مصدقہ اطلاعات کئی مرتبہ آ چکی تھیں۔ فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ یہ اطلاع سچ تھی۔
خبر کی تصدیق ہوتے ہی بھارتی فوج کی پلٹون حیدر پورہ میں سید علی گیلانی کے گھر کے باہر پہنچ گئی۔ صحافی جو سید علی گیلانی کی آخری رسومات کی عکس بندی کرنا چاہتے تھے انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔
جمعرات کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو کی سی کیفیت رہی۔ موبائل سروسز بند تھیں۔ انٹرنیٹ منقطع تھا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ کہیں بھارت مخالف مظاہرے نہ ہوں۔ ا
س کے باوجود کچھ نوجوانوں نے بھارتی فوج کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ اس پر ان نوجوانوں کا پیچھا کیا گیا اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔