دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران رواں ہفتے 10 کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے۔ ان ہلاکتوں کی وجہ مبینہ طور پر ماؤنٹ ایورسٹ پر پڑنے والے ’خطرناک رش‘ کو قرار دیا جا رہا ہے۔
نیپالی حکام کے مطابق صرف گذشتہ منگل کو 120 سے زائد کوہ پیماؤں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔ ان میں سے کچھ رش کی وجہ سے ڈھلوان پر پھنس گئے جس کے بعد تھکن اور پیاس کی شدت سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
8 ہزار 850 میٹرز یعنی 29 ہزار 35 فٹ بلند ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کے دوران بھارت سے تعلق رکھنے والے تین کوہ پیما، جن میں دو خواتین اور ایک مرد شامل تھا، تھکن سے ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین کوہ پیما 54 سالہ انجلی شردھ کلکرنی، 49 سالہ کلپنا داس جبکہ مرد کوہ پیما 27 سالپ نہال اشپک بگوان شامل ہیں۔
ٹور انتظامیہ کے مطابق بگوان رش کی وجہ سے 12 گھنٹے تک ڈھلوان پر پھنسے رہے اور وہ بری طرح تھک چکے تھے۔
اس کے علاوہ آئرلینڈ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایک کوہ پیما کی بھی ہلاکت ہوئی۔
44 سالہ برطانوی کوہ پیما روبن فشر ہفتے کی صبح چوٹی تک پہنچ گئے تھے، تاہم پھر وہ ڈھلوان سے 150 میٹرز نیچ گر کر ہلاک ہوگئے۔
ٹور انتظامیہ سے منسلک موراری شرما نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہمارے گائیڈز نے ان کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ فوراً ہی دم توڑ گئے۔‘
ماؤنٹ ایورسٹ پر تبت کی جانب بھی ایک 56 سالہ آئرش کوہ پیما کی موت واقع ہوئی، جس کی تصدیق ان کی ٹور انتنظامیہ نے فیس بک پیج کے ذریعے کی۔
مذکورہ کوہ پیما نے چوٹی سر کیے بغیر ہی واپسی کا فیصلہ کیا تھا، لیکن وہ 22 ہزار 965 فٹ کی بلندی پر اپنے خیمے میں ہی ہلاک ہوگئے۔
صرف اس سیزن میں ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک افراد کی تعداد گذشتہ سال میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سے تجاوز کر چکی ہے۔ گذشتہ برس یہ تعداد پانچ تھی۔
نیپالی حکومت کی جانب سے اس سال ماؤنٹ ایورسٹ کو سَر کرنے کے لیے 380 اجازت نامے جاری کیے گئے تھے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 365 تھی۔ 2016 میں 289 اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔
اس سے قبل اس ہفتے ہلاک ہونے والے دیگر کوہ پیماؤں میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ شخص بھی شامل تھے جو تبت کی شمالی سمت میں ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں ایک اور بھارتی اور امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والے 55 سالہ امریکی کوہ پیما ڈان کیش نے ایورسٹ کو سر کر کے ہر براعظم میں بلند ترین چوٹی سر کرنے کا اپنا خواب پورا کر لیا تھا۔
گائیڈ مہیا کرنے والی کمپنی پائنیر ایڈوینچر کے سربراہ پسنگ تنیجا کہتے ہیں: ’جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو وہ گر پڑے۔ ان کے ساتھ موجود افراد نے ان کو مساج اور مصنوعی سانس دینے کی کوشش کی جس کے بعد وہ ہوش میں آگئے لیکن کچھ دیر بعد ہیلری سٹیپ کے قریب وہ دوباہ گر گئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں بلند مقام پر رہنے سے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔‘
ایورسٹ بلاگر ایلن آرنیٹ کے مطابق جمعرات کو تبت کی جانب سے آنے والے افراد میں ایک سوئس کوہ پیما ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والے کوہ پیما کا نام ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا۔
آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر سیموئس لالیس بھی 16 مئی کے بعد سے نہیں دیکھے گئے۔ مارچ سے شروع ہونے والے اس کوہ پیمائی کے سیزن میں ہمالیہ کی مختلف چوٹیوں پر 17 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے سات کا تعلق بھارت سے ہے۔
آرنیٹ اپنے بلاگ میں کہتے ہیں: ’تیز ہوائیں واپس آچکی ہیں اور پہاڑ کے دونوں اطراف میں لوگوں کی بڑی تعداد رش کا سبب رہی ہے۔ اس بار پہاڑ سر کرنے کے مواقع کم مل رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ بلند مقام پر آکسیجن کی کم مقدار کے باعث انسان اکثر سر درد، قے، سانس لینے میں دشواری اور دماغ ماؤف ہونے جیسے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔