انڈیا: وقف ایکٹ نافذ، مسلمانوں کو اوقاف چھننے کے خدشات

مسلم جماعتوں جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علما ہند اور جماعت اسلامی وغیرہ نے کھل کر اس قانون کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔

انڈیا میں مسلمانوں کی ناراضی کے باوجود مودی حکومت نے آٹھ اپریل کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 نافذ کر دیا، اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد مسلمانوں میں اوقاف کے چھینے جانے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔

وقف قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی انڈیا کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس سمیت کئی مسلم ادارے اور شخصیات سپریم کورٹ پہنچ گئے، جہاں سے قانون کے کچھ نکتوں پر عارضی راحت ملی ہے۔

کورٹ نے قانون کو رد نہیں کیا، مسلمانوں کی جانب سے اسے راحت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاہم حکومت اس ایکٹ پر کسی طرح پسپا ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔

سپریم کورٹ جانے سے پہلے مسلمانوں کی جانب سے اس قانون کی نہ صرف شدید مخالفت کی گئی بلکہ ملک کے کئی حصوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ حتی کہ قانون بننے سے پہلے بھی شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

اسی تناظر میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی کئی نشستوں میں حکومت کے ذریعے وقف کے انتظام میں تبدیلی کے خلاف مسلمانوں کے ذریعے تجاویز دی گئیں، جسے حکومت نے یا تو بالکل نظر انداز کردیا یا بے معنی اضافہ کیا۔

مسلم جماعتوں جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علما ہند اور جماعت اسلامی وغیرہ نے کھل کر اس قانون کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد نے انڈیپنڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ایکٹ میں شریعت کے مطابق وقف کے انتظام کا حق پوری طرح ختم ہوگیا ہے، وقف بائی یوزر یعنی جو مسلمانوں کے مذہبی استعمال میں ہے، ختم کردیا گیا، اس کے علاوہ غیر مسلموں یا ہندووں کو وقف کے انتظام میں داخل کردیا گیا۔ اسی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ہے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بے پناہ اختیارات دینا۔ ریاستوں میں ڈی ایم کس طر ح کام کرتے ہیں یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نہیں کہتا کہ سارے اوقاف چھین لیے جائیں گے، تاہم حکومت جو بھی زمین چھیننا چاہے گی، اس ایکٹ میں حکومت کو پوری آزادی ہوگی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعیی علمائے ہند کے سربراہ مولانا محمود اسعد مدنی نے بتایا کہ اب تک یہ ہوتا تھا کہ مسلمانوں کے لیے قانون بنتا تھا تو مسلمانوں سے رائے مشورے لیے جاتے ہیں، اس سے پہلے 1937 میں شریعت ایپلیکیشن ایکٹ اور بعد ازاں وقف ایکٹ 1954 اور 1995 میں جمعیت کی سفارشات کو شامل کیا گیا، لیکن موجودہ حکومت کسی بھی دینی و قانونی ادارے کی رائے کو خاطر میں نہیں لائی۔

ان کے مطابق: ’پہلے جب کوئی قانون بنتا تھا، تو کچھ کمیاں رہ جاتی تھیں تو ہم آواز اٹھاتے تھے کہ اسے اور بہتر بنائیں، مگر اب تو یہ پورا قانون اس حکومت نے مسلمانوں کے خلاف بنا دیا۔‘

ان کے مطابق نیا نافذ شدہ قانون وقف کی روح اور اس کے مقاصد کو مجروح کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف قانونی و آئینی سطح پر اس کی مخالفت کی جائے، بلکہ عوام میں بیداری بھی پیدا کی جائے تاکہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد کے مطابق مسلمانوں کی جانب سے اس قانون پر جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان میں مثال کے طور پر: دفعہ 40 اور دفعہ 83 کے ذریعے وقف  بورڈ اور وقف جائیدادوں کی قانونی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ دفعہ تین کے تحت پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے والے شخص کو ہی وقف کرنے کا اختیار ہوگا، یہ بہت خطرناک ہے۔

اسی کے ساتھ دفعہ 3D میں آثار قدیمہ کے تحت آنے والی املاک سے وقف حیثیت کی منسوخی جیسے نکات اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں، کیونکہ زیادہ تر مساجد جو قدیم ہیں یا سلطانوں یا نوابوں کے زمانے میں بنائیں گئیں، اگر انہیں وقف کی حیثیت سے نکال دیں گے تو اس کا شرعی طریقہ سے انتظام کیسے ہوگا، جیسے متولی اور دیگر انتظامات۔

جماعت اسلامی کے امیر سعادت اللہ حسینی کے مطابق: ’حکومت اس قانون کا دفاع کر رہی ہے اور ان کی جانب سے کئی گمراہ کن دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، کہا گیا کہ وقف بورڈ چیریٹی کمشنر کی طرح ہے جبکہ یہ دعویٰ قطعی غلط ہے۔

’اس کی نوعیت کسی چیریٹی کمشنر کی طرح نہیں ہے۔ متعدد ریاستوں میں ہندو اور سکھ  اوقاف کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں جس میں ان اوقاف کی دیکھ ریکھ کرنے اور انتظامات سنبھالنے کا مکمل اختیار متعلقہ مذہبی طبقات کے افراد کو حاصل ہے۔ حکومت نے وقف املاک میں بد انتظامی اور قانونی تنازعات کو اس ترمیم کی اصل وجہ بتایا ہے۔ مگر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس رہنمائی نہیں کی ۔

’اس کے بجائے غیر مسلم اراکین کو شامل کرنے اور حکومت کے نامزد افسران کو اختیارات منتقل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرکاری حکام اور افسروں کی مداخلت سے بدعنوانی اور بد انتظامی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قانون کو مسلم اداروں کو کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔‘

اقلیتی وزیر کرن ریجو کا کہنا ہے کہ ’نیا قانون وقف املاک کو ریگولیٹ کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے ایک کوشش ہے، اس کا مقصد شفافیت کو بڑھانا، گورننس کے ڈھانچے کو بہتر بنانا اور وقف کے اثاثوں کو غلط استعمال سے بچانا ہے۔‘

اب تک انڈیا میں وقف املاک کا نظم و نسق وقف ایکٹ 1995 کے تحت چلایا جاتا ہے، بعد میں 2013 کی کچھ ترامیم شامل ہیں، جسے سابق کانگریس اور حامی پارٹیوں کی حکومت نے بنایا تھا۔

وقف ترمیمی ایکٹ 2025 میں ایسے اضافے جس پر اعتراضات ہیں:

  1. وقف کے انتظامی اداروں میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت۔
  2. وقف کے ٹریبونل میں ارکان کی توسیع، جس سے حکومتی نمائندوں کی اکثریت ہوگی۔
  3. وقف املاک پر تنازعات کا فیصلہ سرکاری افسر کریں گے، اس طرح وقف اراضی پر تنازعات کے حل میں عدالتی نگرانی کم ہوجائے گی۔
  4. وقف ٹریبونل کے فیصلہ کو دیگر کورٹس میں چیلنج کرنے کا اختیار۔

سیکشن 40 کی منسوخی:

یہ دفعہ وقف بورڈ کو وقف کی پرانی یا نامعلوم زمین کو وقف قرار دینے اور واپس لینے کا اختیار دیتی تھی، جسے ختم کردیا گیا۔

'وقف بائی یوزر' کا خاتمہ:

ایسی عبادت گاہیں جو برسوں سے مسلمانوں کے مذہبی استعمال میں ہیں مگر وہ ڈکیلیرڈ نہیں ہیں، ایس عبادت گاہوں کی قانونی حیثیت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

قبائلی زمینوں پر وقف کی ممانعت:

آئین کی پانچویں اور چھٹی شیڈول کے تحت آنے والی قبائلی زمینوں کو وقف سے خارج کر دیا گیا ہے۔

لیمیٹیشن ایکٹ 1963 کا اطلاق:

اس سے اب تک وقف کی اراضی باہر تھیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا