معروف تجزیہ کار اور کالم نگار گل بخاری نے پی ٹی ایم اور فوج کے حالیہ تنازع پر کہا کہ ’پی ٹی ایم پر بغیر کسی شواہد کے انتہائی سنگین الزام لگائے گئے ہیں جس کی تفتیش ضروری ہے۔‘
دی انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے گل بخاری نے کہا کہ ’اب تک جتنی بھی ویڈیوز سامنے آئی ہیں پی ٹی ایم کے کارکنان کے ہاتھوں میں نا کوئی ہتھیار نظر آئے، نا ڈنڈا، نا کوئی اینٹ۔ اب تک جو اطلاعات ہمارے پاس موجود ہیں اس کے مطابق پی ٹی ایم اس صورتحال کی ذمہ دار نہیں ہے۔‘
گل بخاری نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سول حکومت کو فوری طور پر معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر بات چیت کے ذریعے معاملے کا حل نکالنا چاہیے اور فوج کو معاملے سے الگ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: 'فاٹا خیبر پختونخواہ میں ضم ہوچکا ہے مگر سویلین حکومت غائب ہے۔ فوج نے ایک منتخب رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کیا جس کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘
’بلاول بھٹو، شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف نے بھی واقعے کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن بنانا چاہیے۔‘
خیال رہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی گذشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں فوجی اہلکاروں کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے تین کارکنان کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گرفتار پی ٹی ایم قائدین کی رہائی اور معاملے کی تحقیقات اور سچائی سامنے لانے کے لیے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
تازہ اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان واقعہ کے خلاف میرانشاہ میں پی ٹی ایم کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری ہے اور اس دھرنے کی قیادت ایم این اے محسن داوڑ کر رہے ہیں۔
علاقے میں انٹرنیٹ، لینڈ لائنز اور موبائل سروس تاحال معطل ہے اور غیر مقامی افراد کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے جبکہ دھرنے میں شرکت کے لیے جنوبی وزیرستان سے قافلے میرانشاہ پہنچ رہے ہیں۔
پاکستانی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا پر کافی متحرک اور بےباک آواز سمجھی جانے والی گل بخاری کو گذشتہ برس جون میں چند افراد نے کئی گھنٹوں کے لیے اغوا بھی کیا تھا لیکن بعد میں خاموشی سے چھوڑ دیا تھا۔
پی ٹی ایم فوج تنازعے پر مریم نواز شریف کے موقف پر گل بخاری کا کہنا تھا کہ’مریم نواز شریف نے عمران خان کو ذمہ دار قرار دے کر درست کیا لیکن دوسری پارٹی کو مظلوم بنا دیا۔ مریم نواز محتاط ہو کر چل رہی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے مریم نواز سے توقع تھی کہ وہ زیادہ صاف بات کرتیں۔ آخر گولیاں عمران خان یا ان کے وزیروں نے تو نہیں چلائی، جس نے گولیاں چلائیں آپ اس کا نام بھی نا لیں یہ زیادتی ہے۔‘
گل بخاری نے واضح کیا کہ ’میں کبھی کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہی۔ بلاول بھٹو زرداری کے حق میں کی جانے والی میری ٹویٹ کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکنان نے یہ سمجھا کہ میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی ہوں۔ میں ان کی محبت کو سراہتی ہوں مگر میں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ میں کبھی مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کا حصہ نہیں رہی۔ جو بھی جماعت آئین و قانون، پارلیمنٹ، انسانی حقوق کی بات کرے گی میں اس کا ساتھ دوں گی۔ میں ایشوز کی سیاست کرتی ہوں، شخصیت پرستی پر یقین نہیں رکھتی۔‘
پی ٹی ایم کی حمایت کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’پی ٹی ایم آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر حقوق مانگ رہی ہے۔ میں فوج کے خلاف نہیں ہوں نا مجھے فوج سے کوئی بغض ہے۔ میں ایک سینیئر فوجی کی بیٹی ہوں اور اس سے بھی زیادہ سینیئر فوجی کی بہو ہوں مجھے فوج سے کیا نفرت ہوسکتی ہے؟ مجھے صرف فوج کی پالیسی سے اختلاف ہے۔ سات لاکھ فوجی جوان ہیں میں ان سے نفرت تھوڑی کرتی ہوں۔‘
گل بخاری نے سوال کیا کہ ’فیض آباد دھرنے میں موجود لوگوں کے لیے فوج کہتی ہے یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں تو میرا یہ سوال ہے کہ فاٹا کے لوگ کس کے ہیں؟‘
’اگر پی ٹی ایم کے کسی کارکن کی فوج پر حملہ کرنے کی ویڈیو ہے تو سامنے لائی جائے۔ اگر فوجی جوان زخمی ہوئے ہیں تو وہ بھی ہمارے بھائی ہیں، ہمارے جوان ہیں، ہمارے بیٹے ہیں اور ہمارے خاندانوں سے ہی فوج میں بھرتی ہوئے ہیں۔ اگر ہمارے فوجی جوانوں پر کوئی ہاتھ ڈالے گا تو ہم فوج کے ساتھ کھڑیں ہوں گے مگر اب تک کسی بھی فوجی جوان کے زخمی ہونے کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ایک ویڈیو میں ایک 15 سالہ نوجوان کو زخمی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔‘
پی ٹی ایم اور فوج کے تنازعے میں بعض نیوز چینلوں اور صحافیوں کے کردار پر گل بخاری کا کہنا تھا کہ کچھ صحافی ضمیر بیچ چکے ہیں۔ ’انہیں جو لکھا ہوا ملتا ہے اسے ٹی وی پر پڑھ دیتے ہیں، کیا یہ صحافت ہے؟‘
ان کا کہنا تھا: ’صحافت دم توڑ چکی ہے۔ کوئی بھی شخص کچھ مخصوص میڈیا گروپس کی خبر ماننے کو تیار نہیں۔ یہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں اس لیے اب لوگ مستند خبر لینے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔‘