وہ ایک فون کال جو سفارتی اور سیاسی سردمہری کی بدترین علامت بن چکی ہے اس پر بھی بدقسمتی سے پاکستان میں سوال اٹھایا ہی گیا اور جواب بھی سننا ہی پڑا۔
جی مجھے معلوم ہے کہ پاکستان میں ٹیلی فون پر کچھ ناراضگی اور مایوسی ہے لیکن صدر آج کل کچھ مصروف ہیں۔ لاحول ولاقوة الا بالله! حد ہے پاکستان میں ہماری اپنی ہی ناسمجھی کی کے ایک فون کال کو جیسے خود ہی اپنی چھیڑ بنا لیا ہو۔
اب تو کوئی انٹرویو وزیر اعظم عمران خان کا انٹرویو کرتا ہی نہیں بغیر ان سے ٹیلی فون کا سوال کیے ہوئے۔ تو یہی سوال اس مرتبہ امریکی سفارت کار وینڈی شرمن سے بھی ہوا۔ جواب وہی تھا پاکستانی وزیر اعظم اور قومی سلامتی کے مشیر دے چکے ہیں!
وینڈی شرمن کے پاکستان ہوتے ہوئے ایک اور خبر جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ شاید آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پر اب اقتصادی دباؤ بھی ڈالنا چاہ رہا ہے۔ یہ بات پاکستان کے اعلی ترین پالیسی ساز فورمز پر ہوئی۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے اپنی شرائط سخت کر دی ہیں جن میں ٹیکس کی چھوٹ کم کرنا اور تیل اور بجلی کی قیمت بڑھانا شامل ہیں۔ یقینا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتری کی طرف لے جانا دونوں ممالک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ دونوں ہی کے لیے یہ تعلقات ہر لحاظ سے اہم بھی ہیں لیکن بہرحال ابھی دونوں کو بہتری لانے کے لیے باہمی اعتماد بڑھانا ہوگا۔
سوال تو یہ ہے کہ کیا ڈپٹی سیکریٹری وینڈی شرمن کے دورے کے نتیجے میں پاکستان امریکہ کے تعلقات میں کچھ بہتری آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے؟
امریکی ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمن نے یہ دورہ جس وجہ سے کیا وہ کچھ انہوں نے بھارت میں بیان کر دیا۔ ممبئی میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے وینڈی شرمن نے سپاٹ انداز میں بہت کچھ کہہ دیا۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہت محدود رکھنا چاہتا ہے۔ جیسے پرانے وسیع بنیادوں پر تعلقات تھے ویسے تو اب نہیں ہوں گے اور نہ ہی امریکہ اس کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ امریکہ کو اس میں دلچسپی نہیں ہے نہ ہی ہم جو تعلقات تھے امریکہ اور پاکستان کو ساتھ ساتھ دیکھا جاتا تھا اس دور کے تعلقات کا بھی اب کوئی امکان نہیں۔ نہ ہم اس جگہ پر موجود ہیں اور نہ ہم اس طرف جانا چاہتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ ہم سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اور وہاں کیا کرنا ہے۔
’ہم سب کو طالبان کے حوالے سے ایک پیج پر ہونے کی ضرورت ہے اور سب کو مل کر آگے چلنا ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے ہمیں اس پر تسلی ہونی چاہیے کے ہمارے پاس اجتماعی طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کے وسائل اور طریقہ موجود ہیں۔ ہمیں سب کی سکیورٹی کے لیے انتظامات ضروری ہے بشمول یقینا بھارت کی سکیورٹی کے لیے بھی۔ ان معاملات پر جو ایک جاری گفتگو ہے پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس کو اپنے دورے میں آگے آگے بڑھایا جائے گا۔ خاص طور پر وہ گفتگو جو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اور امریکی سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن کے درمیان نیویارک میں ہوئی۔‘
تو یہ بھارت میں امریکی ڈپٹی سیکریٹری کے انٹرویو کا لب لباب تھا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے امریکہ کی یو این سکیورٹی کونسل کی بھارتی صدارت کی بھی بہت تعریف کی۔ یہ بھی کہا کہ بھارت کی قیادت مثالی تھی۔
یاد رہے کہ بھارت نے اپنی صدارت کے دوران پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم کو افغانستان پر منعقد سکیورٹی کونسل کے ہر اجلاس سے باہر رکھنے کی ہر کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں اس نے وینڈی شرمن کی قصیدہ گوئی حاصل کی۔ بھارت میں دیا ہوا یہ انٹرویو یقینی طور پر امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک تاریخی باب مانا جائے گا جس میں سفارت کاری کو پیچھے دھکیل کر قصیدہ گوئی کو اپنایا گیا۔
دلچسپ بات بہرحال یہ ہے کہ پاکستان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات چیت کے بعد امریکی سفارت کار نے اپنی ٹویٹ میں کچھ مختلف تاثر دیا۔ انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے دیرینہ اور اہم تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اور امریکہ کے مستقبل کے تعلقات پر بات چیت ہوئی اور کس طرح خطے اور عالمی مسائل سے نمٹا جائے۔ یقینا وینڈی شرمن نے اپنی ٹویٹ میں افغانستان کا بھی ذکر کیا۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک سفارتی طور پر صحیح فیصلہ کرتے ہوئے وینڈی شرمن کو ہم منصب یا پھر ہم منصب سے بڑھ کے پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کروانا مناسب سمجھا۔ وزیر اعظم خود ان سے نہیں ملے۔ البتہ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفارت کار سے اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
پاکستان یقینا دوستی کا ہاتھ آگے بڑھانا چاہتا ہے، جو مسائل ہیں انہیں حل کرنا چاہتا ہے لیکن ایک صحیح اور مناسب طریقے سے۔ پاکستان کی شکایات تو کم ہی ہیں اور کوئی مستقبل کے لیے مطالبات بھی خاص نہیں۔ تعلقات کو صحیح مناسب اور باہمی فائدے کے حوالے سے آگے بڑھایا جائے جس میں خطے کے مسائل یعنی اقتصادی ترقی، دہشت گردی کا خاتمہ، ہتھیاروں کی بھرمار سے انحراف بشمول کشمیر کے حل ہونا چاہییں۔ یہ معاملات کوئی پاکستان نے پہلی مرتبہ نہیں چھیڑے لیکن سیاق و سباق کچھ مختلف ہے۔ چار معاملات خاص طور پر اہم ہیں۔
نمبر ایک یہ کہ امریکہ کی ہار اور طالبان کی جیت کے بعد واشنگٹن کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشی اور اسلام آباد کی طرف سے امریکہ پر تنقید کا ایک نیا تند و تیز سلسلہ بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ایک طرف سے امریکہ کے سیاست دان، کسی حد تک امریکی حکومت اور امریکی جرنیل پاکستان کو امریکہ کی شکست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اس پر دوغلے پن کا الزام لگاتے ہیں اور دوسری طرف سے پاکستان امریکہ کو ہی افغانستان میں کی ہوئی غلطیوں کی یاد دہانی کرواتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرق البتہ یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی پالیسی کی تنقید امریکی صدر شاید نہیں کرتے، یہ کام ان کے عہدیدار کرتے ہیں اور پاکستان میں امریکہ کی پالیسی پر تنقید وزیر اعظم کرتے ہیں۔ وہ امریکہی پالیسی پر تنقید کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اپنی پالیسی کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔
نمبر دو: امریکہ اس وقت ایشیا میں اپنے آپ کو ایک کمزور سٹریٹیجک صورت حال میں دیکھ رہا ہے۔ ایک طرف روس، ترکی، ازبکستان، پاکستان اور کسی حد تک ایران آپس میں تعلقات خاص طور پر انٹیلی جنس اور دہشت گردی پر تعاون بڑھا رہے ہیں۔
نمبر تین: پاکستان نے امریکہ کو فوجی اڈے نہ دینے کا اور چین سے تعلقات کو برقرار رکھنے کا بھی دوٹوک پیغام دے دیا ہے۔ پاکستان کا یہ پیغام اور اشارہ امریکہ کی موجودہ سٹریٹیجک صورت حال میں اس کی مشکلات میں کسی قسم کی آسانی پیدا نہیں کر سکتا لیکن پاکستان امریکہ کی کشیدگی ضرور بڑھا سکتا ہے۔
نمبر 4: اس صورت حال میں امریکہ بھارت کو اپنا اور زیادہ اہم سٹریٹیجک پارٹنر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور دوسری طرف پاکستان ہندوستان کے تعلقات کی کشیدگی بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان امریکہ تعلقات کے موجودہ سیاق و سباق میں شاید وہ ایک معاملہ تعلقات میں انڈیا دور میں سب سے زیادہ بگاڑ پیدا کیا شاید وہی اس بگاڑ کے ختم ہونے کی شروعات کا باعث بنے...... اور وہ ہے افغانستان۔
مختلف وجوہات کی بنا پر امریکہ کے لیے پاکستان یہاں سٹریٹیجک اہمیت کا باعث ہے۔ ماضی کے تناؤ کا معاملہ زیادہ تر ہندوستان کی افغانستان میں موجودگی وہاں سے خطے میں اور خاص طور پر پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے میں اس کا کردار تھا۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی کردار میں کمی اور پاکستان کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی اہمیت کے نتیجے میں کیا پاکستان اور امریکہ افغانستان میں تعاون کو اپنے تعلقات کی بہتری کی وجہ بنا سکتے ہیں؟