افغانستان میں سپر شکست کے بعد سپر پاور نے اب یہ باور کرا دیا ہے کہ پاکستان جس نے افغان بحران کے پائیدار حل اور دہائیوں سے خطرے میں گھرے خطے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، ایک طویل ڈیڈ لاک کو ٹیبل ٹاک میں بدلا، اب اس کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات کا قیام اُسے نظر نہیں آ رہا۔
امریکہ کو جو دکھائی دے رہا ہے کیا ہمیں یہ واضح اور دو ٹوک پیغام سنائی دے رہا ہے؟ کیا امریکی سرکار کو اپنے اہم اتحادی سے بے رُخی اختیار کرنے کا یہ خیال اچانک آیا ،جس کا اظہار امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے دورہ پاکستان سے قبل بھارت جا کر کیا۔
امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے بھارت میں دیے گئے بیان میں نہ صرف افغان طالبان بلکہ پاکستان پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔
امریکہ طالبان سے خائف اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنے کیے گئے کسی عہد کا پاس نہ رکھا جبکہ سرزمین ہند سے پاکستان کو یہ پیغام دیا گیا کہ دورہ اسلام آباد مخصوص اور محدود مقاصد کے لیے ہوگا اور ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا کہ امریکی سرکار کو کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان اور بھارت کو ایک ساتھ ملا کر دیکھیں۔
افغان بحران کے تناظر میں امریکی فکر اب صرف یہ باقی رہ گئی ہے کہ اسے نہ صرف اپنی بلکہ بھارت کی بھی سکیورٹی کے خدشات ہیں، جیسا کہ وینڈی شرمن نے بھارتی میڈیا سے گفتگو میں کہا۔
امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کی قسط اور پاکستان کو دکھائے گئے ٹریلر نے امریکہ کی جنوبی ایشیا کی جانب جھکاؤ کی پالیسی کی جھلک دکھلا دی ہے۔ وینڈی شرمن جو بیان بھارت میں دے رہی ہیں وہ دراصل بائیڈن انتظامیہ کا ہی پیغام ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ہمارے ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کے بعد اپنے ’ڈو مور‘ سے بھی کہیں دور نکل چکا ہے۔
وینڈی شرمن کے دورہ پاکستان کے بعد جو اعلامیے میں کہا گیا وہ اعلانیہ دیے گئے بیانات کے بالکل متضاد ہے۔ اعلامیہ تو پاکستان کی خدمات کو سراہنے، تعلقات کو بڑھانے، دوریوں کو مٹانے، نزدیک آنے کی تصویر کشی کرتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ جو باتیں بیانات کی صورت میں اعلانیہ کہی گئیں وہ ہمیں سنگین ڈیڈ لاک کا پتہ دے رہی ہیں۔
پاکستان کو اس صورت حال کی نہ صرف کڑی سے کڑی ملانے بلکہ اس پر کڑی نظر رکھنے کی بھی کڑی ضرورت ہے۔ امریکہ کا پاکستان کو دبے لفظوں میں افغانستان میں ہونے والی شکست کا ذمہ دار قرار دینا، جیسا کہ ہم نے گذشتہ دنوں امریکی سینیٹ میں پیش کیے گئے ایک بل کی صورت میں بھی دیکھا جس میں افغانستان میں امریکی شکست کے تناظر میں افغان طالبان کے تعاون کاروں اور مددگاروں کی کھوج لگانے کا مطالبہ کیا گیا اور نشاندہی کے بعد ان سہولت کاروں اور تعاون کاروں کے خلاف پابندیوں سمیت دیگر اقدامات بھی تجویز کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی نائب وزیر خارجہ کے حالیہ بیانات کو اگر اس بل کے تناظر میں ہی دیکھ لیا جائے تو جاننا آسان ہوگا کہ بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان کو لے کر سوچ اور ارادے کیا ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تمام تر صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے پاس آپشنز کیا ہیں؟ جس طرح بقول امریکی عہدیدار کہ مخصوص اور محدود مقاصد کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کے پاس آپشنز بھی محدود اور مخصوص ہی ہوں گے؟ اور پھر پاکستان کو آپشنز بھی مخصوص اور محدود فراہم کیے جا رہے ہوں گے؟ مخصوص اور محدود ہی سہی ، پاکستان کے پاس آپشنز تو موجود ہیں کہ اول تو امریکہ کو سفارتی دلائل سے قائل کیا جائے کہ اس خطے کو جسے وہ تاریخی شکست کے بعد تاریکی میں چھوڑ گیا، اس مسئلے کو مذاکرات کی میز پر ہی سلجھایا جا سکتا ہے، نہ کہ دوطرفہ تعلقات کو ’ساس بہو‘ کے رشتے میں ڈھال کر۔
دوسرا آپشن یہ کہ کاونٹر نیریٹیو یعنی جوابی بیانیہ اپنایا جائے اور ایک سوالنامہ امریکہ کو بھی تھمایا جائے کہ آخر بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی ہے کیا؟ کیا یہ محض دباؤ ڈالنے کی پالیسی ہے؟ اگر نہیں تو پھر امریکہ نے اپنے اہم اتحادی پر شک کی یہ نظر کیوں جما دی ہے؟
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات جس قدر سرد مہری کا شکار اب ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ امریکہ کی پاکستان کو لے کر یہ ریورس انجینئرنگ (Reverse Engineering ) کوئی نیا عمل نہیں، بائیڈن انتظامیہ سے پہلے ٹرمپ بھی پاکستان کو مختلف مراحل میں ڈمپ کرچکے ہیں۔ یعنی یہ امریکہ کی شخصی نہیں بلکہ ریاستی پالیسی ہے۔
پاکستان کو بھی بطور ریاست اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے سفارتی محاذ پر بڑی سوچ بچار کے ساتھ پیش قدمی کرنا ہوگی۔ امریکہ کے پیج پر آنے کے لیے ضروری نہیں کہ پاکستان کانٹوں کی سیج پر لیٹ جائے۔ ’مخصوص اور محدود‘ آپشنز میں رہتے ہوئے بھی سپر پاور کو یہ باور کرایا جا سکتا ہے کہ خطے کے زمینی حقائق اب بھی پاکستان ہی کے مرہونِ منت ہیں ۔ خطے کا اہم سٹیک ہولڈر بھارت نہیں بلکہ پاکستان ہے جس نے 2. سال کی طویل جنگ کا مالی، جانی اوت ہر لحاظ سے خمیازہ بھگتا اور آج بھی بھگت رہا ہے۔
امریکہ کو اس بات پر قائل کیا جانا چاہیے کہ اسے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی کیونکہ خطے کا امن اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائی پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔