جب سے پاکستان میں ایس یو ویز کا بخار آیا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان سے متعلق ان گنت فورمز اور پیجز بھی بن چکے ہیں۔ کسی نے ان گاڑیوں کی محبت میں تو کسی نے خریدوفروخت کے لیے یہ صفحات بنا ڈالے ہیں۔
لیکن ایک گروپ میں اپنی نئی گاڑی کے ساتھ تصاویر کے علاوہ جو چیز سب سے زیادہ محسوس کی، وہ صارفین کی سوالیہ پوسٹس تھیں۔ ہر نیا صارف سپیڈ میٹر کی تصویر پر ایک عجیب و غریب سائن کے آن ہونے کی تصویر لگا کر بڑی معصومیت سے پوچھتا ہے: ’بھائی کوئی بتاؤ یہ کیا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟‘
یہ گاڑی ہے برطانوی برانڈ کی چینی کمپنی SAIC ایم جی۔ اس میں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کمپنی نے بظاہر اتنا کچھ ڈال دیا ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے میرے خیال میں گاڑی سے پہلے ٹیوشن لینی لازمی قرار دی جانی چاہیے۔ ماضی میں محض اشاروں اور پیٹرول کے گیج پر نظر رہتی تھی لیکن اس کپمنی نے مقابلے کی دوڑ میں اس میں سب کچھ ڈال دیا ہے۔ اس کے بعد اب وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ماڈل بھی بنانے لگی ہے۔ شکر ہے ابھی وہ ماڈل یہاں نہیں آئے ورنہ اس کے لیے تو چھ ماہ کا تربیتی کورس ضروری کرنا پڑے۔
گاڑی بےشک اعلیٰ معیار کی ہے کیونکہ یہ پاکستان کے سٹینڈرز کے لیے نہیں بلکہ شاید سخت برطانوی ریگولیشن کے لیے بنائی گئی ہے تو معیار کے ساتھ ساتھ حفاظت کا بھی مناسب انتظام کیا گیا ہے۔
اس کے لشکاروں سے لگتا ہے کہ چینی کمپنی کے ذہن میں نوجوان نسل تھی۔ اندرونی و بیرونی روشنیاں اور چھ طاقتور سپیکروں کے ساتھ یہ چلتا پھرتا کلب بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
کہیں کسی نے اس گاڑی کے تعارف میں لکھا کہ زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ، آج کل کے نوجوانوں کے کندھوں پر دباؤ زیادہ بھاری ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ نوجوان اب نوجوانوں کی طرح نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ’واضح طور پر یہی وجہ ہے کہ ایم جی برانڈ ہماری روح کو بیدار کرنے اور اندرونی سستی کو دور کرنے کے لیے ایک کڑوی دوا، ہارمون ایس یو وی ایم جی ایچ ایس لایا ہے۔‘
ڈیش بورڈ اور ڈور پینل تمام کو مکمل طور پر چمڑے میں چھپایا گیا ہے۔ اندرونی ڈیزائن میں بہت سی لائنیں ہیں جن سے یہ مجموعی طور پر درجہ بندی کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ یو ایس بی لگا کر آپ ویڈیو سکرین پر دیکھ سکتے ہیں لیکن صرف اس وقت جب گاڑی کھڑی ہو۔ چلتی گاڑی میں یہ منورنجن ڈرائیور کیا کسی کو دستیاب نہیں۔
گرم رہنے کی صلاحیت کے ساتھ فرنٹ سیٹ میں ایڈجسٹمنٹ کے دو بٹن اور چھ طریقے ہیں۔ بس ایک کمی جنگی طیاروں کی طرح ’ایجکشن‘ کا رہ گیا ورنہ گاڑی میں کوئی دوسری کمی نہیں۔
ایم جی ایچ ایس میں 2.0 ٹی انجن 1500 آر پی ایم پر زیادہ سے زیادہ 80 فیصد ٹارک آؤٹ پٹ حاصل کرسکتا ہے اور چھ اقسام کے ڈوئل کلچ رفتار مزید انتہائی ہموار کرتے ہیں۔ ریس کے شوقین نوجوانوں کے لیے ایک سرخ رنگ کا خطرناک بٹن سٹیئرنگ ویل میں لگایا گیا ہے، جو آپ کو فوری جھٹکے سے اضافی طاقت کے ساتھ ایسی دوڑ لگاتا ہے کہ اندر بیٹھے مسافر فرق محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے، لیکن یہ اضافی طاقت جیب پر اضافی پیٹرول کی کھپت کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گاڑی 1500 سی سی ہے لیکن باڈی تقریباً ڈیڑھ ٹن کی ہے تو فیول ایفیشینسی کی وجہ سے کوئی اتنی اچھی نہیں۔ خود گاڑی کی ونڈ سکرین پر لگا نوٹس خریداروں کو بتاتا ہے کہ یہ گاڑی شہر میں تقریباً ساڑھے سات کلومیٹر فی لیٹر دیتی ہے۔ ایسے میں جب دنیا میں تیل کی قیمتیں ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہیں ایسے میں سرخ بٹن سے دور ہی رہیں۔
تیل بچانے کا ایک موڈ یعنی ’ایکو موڈ‘ بھی موجود ہے۔ زیادہ اس پر ہی چلائیں، تاہم معلوم نہیں کہ اس میں کتنے فیصد بچت ہوسکتی ہے۔ دیگر موڈ سپورٹس اور سوپر سپورٹ کے علاوہ نارمل بھی دستیاب ہے۔ سوپر سپورٹ موڈ آن ہونے کے بعد سٹیئرنگ ویل بھاری ہو جاتا ہے تاکہ گاڑی کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکے۔
گاڑی میں لین اسسٹ اور دیگر نظام اتنے ہیں کہ بس گاڑی چلانا اسی کے نظام پر چھوڑا جاسکتا ہے۔ ڈرائیور آرام کرے لیکن خیال رکھیں یہ باتیں ترقی یافتہ ممالک میں ٹھیک ہیں یہاں نہیں۔ ایک آزاد ملک ہونے کے ناطے جس شہری کا جہاں سے موڈ بنتا ہے سڑک کراس کر لیتا ہے۔ ٹریفک سارجنٹ بھی بےچارہ کرے تو کیا کرے، ناچار سڑک کے بیچ میں کھڑے ہو کر ٹریفک کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اس گاڑی نے اچانک دو مرتبہ شدید بریکیں خود ہی لگا دیں۔ آپ کو خودکار نظام پر گاڑی اگر نہیں چلانی تو ہر مرتبہ سٹارٹ کرنے کے بعد اس اے ڈی اے ایس نظام کو آف کرنا ہوگا، ورنہ بریکیں ہوں گی اور جھٹکے ہی جھٹکے۔
قیمت کے اعتبار سے گاڑی 50 لاکھ سے اوپر ہے جو باقی ممالک کے برابر ہی ہے۔ برطانیہ میں ایم جی کی ویب سائٹ پر 24 ہزار پاؤنڈز قیمت درج ہے جوکہ پاکستان میں آج کے ریٹ پر تقریباً 56 لاکھ بنتے ہیں۔ کمپنی لگ بھگ اسی ریٹ پر پاکستان میں بھی یہ گاڑی دے رہی ہے جوکہ برا نہیں۔
پاکستان کے شماریات بیورو کے مطابق صرف سال 2021 میں گاڑیوں کی درآمد میں 83 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں دو ارب ڈالرز سے زائد خرچ کیے گئے ہیں۔ یہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی قوت خرید کا مظہر ہے، لیکن حکومت کو اس کے بدلے ڈالرز کے باہر جانے کا غم ہے، لہذا ان گاڑیوں کی امپورٹ سخت کی جا رہی ہے۔
فائنل مشورہ اگر ایم جی ایچ ایس لینی ہے تو ٹیوشن کا بھی بندوبست ضرور کرلیں، ایسا نہ ہو بیچ بازار میں فیس بک کے ذریعے مدد مانگ رہے ہوں۔