تمام زندگی سیکنڈ ہینڈ گاڑی ہی خریدی اور چلائی تو نئی گاڑی کا فرق تو محسوس ہونا ہی تھا۔ کیا پک تھی اور کیا تابعداری اس نئی مکمل الیکٹرک گاڑی کی جو مورس گیراجز یا ایم جی پاکستان میں متعارف کروا رہی ہے۔
دنیا بھر میں مستقبل الیکٹرک گاڑیوں کا ہے لیکن پاکستانی سرکار ہر شعبے کی طرح اس میں بھی کافی سست روی دکھا رہی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اب تک بڑے شہروں اور شاہراہوں پر اس کے چارجنگ مراکز کھل جاتے اور تیل سپلائی کرنے والی کمپنیز کو پابند کیا جاتا کہ الیکٹرک گاڑیوں کا بھی بندوبست کریں لیکن ہنوز دلی دور است محسوس ہوتا ہے۔
اسلام آباد جیسے مرکز میں ابھی صرف دو جگہوں پر چارجنگ کی سہولت موجود ہے تو کیوں اس شہر کے قدرے ’ول ٹو ڈو‘ بھی اس جانب آئیں۔ ای وی کی تقریب تجرباتی ڈرائیو میں ایک ممکنہ گاہک نے یہی کہا کہ کیا اب انہیں شہر کے لیے الگ اور لانگ روٹ کے لیے علیحدہ گاڑی رکھنی ہوگی؟
اس کا جواب ایم جی اور حکومت دونوں کو مل کر دینا ہوگا۔ ویسے بھی ایم جی کے جاوید آفریدی اور وزیر اعظم عمران خان میں کافی اچھا تعلق ہے جسے اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس نے 2040 تک پیٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان اس کے مقابلے میں 2030 تک 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک پر منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نو سال میں یہ ممکن ہے؟
پاکستان میں ویسے بھی جو منی ایس یو ویز کا بخار آیا ہوا ہے اور جس قسم کی بڑی بھاری گاڑیاں دھڑا دھڑ سڑکوں پر آ رہی ہیں ان سے تو ملک کا تیل پر زرمبادلہ بھی زیادہ خرچ ہوگا۔ اس بخار کا مثبت علاج ضروری ہے۔ دنیا کی طرف نہیں دیکھنا آگے بڑھنا ہے۔ ویسے بھی ملک میں بجلی زیادہ ہی پیدا ہو رہی ہے تو اس جانب پیش رفت ممکن ہے۔
ماحول کا خیال رکھنے کی جتنی بھی ہو کوشش کرنے والے میرے جیسے شخص کے لیے اس گاڑی کی سب سے بڑی خوبی سائلنسر کی عدم موجودگی ہے۔ نہ سیاہ و سفید دھواں اور نہ ماحولیاتی آلودگی۔ لاہور جیسے شہر کے لیے تو یہ گاڑی سردیوں میں نعمت ثابت ہوسکتی ہے جو کسی حد تک سالانہ سموگ کے تہوار سے اس کی جان چھڑا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیر گاڑی کی قیمت بھی مارکیٹ میں دستیاب منی ایس یو ویز سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ پھر موبل آئل اور فلٹر کی بھی بچت ہے۔ تو اگر ہم نے اس طرح کی الیکٹرک گاڑیوں کو اس وقت قبول نہ کیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ سرکاری مشنری کو تیزی سے حرکت میں آنا چاہیے۔
اس گاڑی کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ چارجنگ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے شہر سے باہر نہیں جاسکتی ہے۔ میرا آبائی شہر پشاور تقریبا 170 کلومیٹر ایک طرف بنتا ہے تو شاید پاور بینک کے ساتھ جا کے آ جاؤں لیکن لاہور تو فی الحال اس میں جانا ممکن نہیں۔
ایم جی کے ارباز کے مطابق گاڑی ایک چارج میں 300 کلومیٹر چلتی ہے اور لاہور اسلام آباد سے 380 کلومیٹر دور ہے۔ اب ایسے میں فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ شہر تک محدود گاڑی چاہیے یا قومی سطح کی۔ اگر اکیلا سفر کر رہا ہوں تو میں تو لاہور بس پر جانے کو بھی تیار ہوں اگر یہ یقین ہو کہ جلد چارجنگ سٹیشن قائم کر دیئے جائیں گے۔
لوگ کہتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑی ماحول دوست ہوتی ہے لیکن اس پر بھی مجھے کچھ زیادہ اعتماد نہیں۔ گاڑی کا ایندھن یعنی بجلی آپ اگر تو رینیوایبل ذرائع جیسے کہ سولر پاؤر سے بنا رہے ہیں تو ٹھیک ورنہ اگر کوئلے سے بن رہی تو پھر تو ماحول کا خدا حافظ۔