کرونا میں آن لائن تعلیم: ’سمارٹ فون نہ ہونے پر سکول چھوڑنا پڑا‘

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کرونا وبا کے دوران سکولوں کی بندش سے پاکستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے 5.53 کروڑ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ تعلیم آن لائن منتقل ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کے رفاقت کا سکول بھی چھوٹ گیا۔

یونیفارم پہنے، ٹفن اور پانی کی بوتل تھامے، کندھے پر بھاری بستہ لٹکائے سکول جاتے بچے۔ گزرے ہوئے ڈیڑھ سال میں یہ منظر تو جیسے نایاب ہی ہوگیا تھا۔

گذشتہ کچھ ماہ پاکستان میں کرونا کی وبا میں کمی کے بعد حکومت نے تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر کھول دیا ہے۔ ایک سال سے زائد آن لائن کلاسز لینے کے بعد اب بچے باقاعدہ روزانہ سکول جا رہے ہیں، مگر اسلام آباد کے رفاقت ان میں شامل نہیں۔

وفاقی دارالحکوممت کے علاقے ایچ نائن کی ایک کچی بستی کے رہائشی رفاقت ان سینکڑوں طلبہ میں سے ایک ہیں جو کرونا وبا کے دنوں میں پڑھائی چھوڑ کر گھر کا چولہا جلائے رکھنے کے لیے نوکری کرنے پر مجبور ہوگئے۔

رفاقت قریبی سرکاری سکول میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ گذشتہ سال کرونا وبا آئی تو سکول بند ہوگیا اور درس و تدریس آن لائن منتقل ہوگئی، اور یہی ان کے سکول چھوڑنے کا سبب بن گیا۔

انہوں نے بتایا کہ استانیوں نے کہا کہ اب کلاسز آن لائن ہوں گی مگر ان کے پاس نہ سمارٹ فون تھا نہ لیپ ٹاپ نہ انٹرنیٹ اور نہ انہیں خریدنے کے وسائل، تو وہ تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔

رفاقت جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں بجلی ہے نہ پانی نہ گیس۔ ان کا گھر دو کمروں پر مشتمل ایک نیم کچہ مکان ہے، اور چھت پر لگے سولر پینل دو پنکھے اور بلب جلائے رکھنے کی بجلی فراہم کرتے ہیں۔

ان کے والد اور والدہ نجی دفاتر میں صفائی کا کام کرتے تھے، مگر کرونا وبا میں وہ بھی چھوٹ گیا، جس کے بعد والد نے چاٹ کی ریڑھی لگانی شروع کردی۔

گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے رفاقت نے سکول چھوڑ کر نوکری شروع کردی، مگر تعلیم سے ان کا لگاؤ ختم نہیں ہوا۔

وہ پادری بننا چاہتے ہیں جس کے لیے انہیں کم سے کم میٹرک تک کی تعلیم تو لازمی چاہیے۔ اسی لیے انہوں نے نوکری کے ساتھ ساتھ نجی طور پر تعلیم کے لیے ایک اکیڈمی جوائن کرلی تاکہ کچھ پڑھائی تو جاری رہ سکے۔

تعلیم میں خلل

یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2020 سے ستمبر 2021 تک دنیا بھر میں 11 ممالک میں 13.1 کروڑ بچے سکولوں میں پڑھائی کے تین چوتھائی حصے سے محروم ہوگئے ہیں۔

کرونا وبا نے پاکستان کی معیشت پر سنگین اثرات تو چھوڑے ہی ہیں، مگر تعلیم کے کمزور شعبے کو اور بھی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈولپمنٹ اکانامکس (پائیڈ) کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کرونا وبا کے دوران سکولوں کی بندش سے پانچ سے 16 عمر کے 5.53 کروڑ بچے متاثر ہوئے ہیں جبکہ عالمی بینک کی اکتوبر 2020 کی تحقیق کے مطابق صرف پاکستان میں ہی 10 لاکھ سے زائد بچوں کے سکول چھوٹ جانے کا خدشہ ہے۔

تحقیق میں شامل پائیڈ کے سینیئر محقق ڈاکٹر جنید احمد نے بتایا کہ 2018 کے اعدادوشمار میں پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر تھے جو ملک میں سکول جانے کی عمر کے بچوں کا 44 فیصد ہے۔ یہ ایک بڑا حصہ ہے اور کرونا وبا کی بندشوں سے سکولوں کا بند ہونا اور لوگوں کے روزگار چھوٹ جانا، اس میں اضافے کا سبب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم آن لائن منتقل ہونے کے بعد فون، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے  کئی ایسے خاندان متاثر ہوئے ہیں جن کے بچے سرکاری سکولوں میں یا پھر کم فیس والے چھوٹے سکولوں میں جاتے تھے۔

صرف بچوں کا سکول چھوٹ جانا ہی نہیں بلکہ تعلیم کے میعار میں بھی نمایاں کمی کا امکان ہے۔

ڈاکٹر جنید کے مطابق پاکستان میں روایتی طور پر 18 سال کی عمر تک بچے کی 9.4سال کی تعلیم مکمل ہونا متوقع ہوتی ہے، مگر طلبہ کی صلاحیت محض 5.1 سال کی تعلیم کے برابر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دسویں جماعت کا طالب علم ہے مگر اس کی صلاحیت وہ ہے جو پانچ سال کی تعلیم کے طالب علم کی ہوتی ہے یعنی پرائمری تعلیم کے برابر۔

ڈاکٹر جنید کا کہنا تھا: ’یہ لرننگ گیپ تقریباً 4.3 سال کا ہے۔ لڑکیوں میں یہ لرننگ گیپ اور بھی زیادہ ہے۔ یہ ہمارے ملک کے تعلیم کے نظام کے ناقص میعار کو ظاہر کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا آن لائن تعلیم پر منتقل ہونے سے اس خلا میں اور بھی زیادہ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق مزید تین ماہ، پانچ ماہ اور سات ماہ سکول بند رہنے سے لرننگ گیپ 4.8، 4.4 اور 4.2 سال ہونے کا خدشہ ہے، یعنی بچوں کی تعلیمی صلاحیت اتنی کم ہو جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وبا کے دوران گھر کے بڑوں کی نوکریاں چھوٹ جانے سے بچوں پر کمانے کا دباؤ پڑا ہے اور اس سے کئی بچے لیبر مارکیٹ میں بھی شامل ہوئے ہیں، اور ایک بار بچہ کمائی کرنے لگے تو وہ واپس سکول نہیں آئے گا۔

اس صورت حال کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو طویل مدتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جہاں وہ سکول چھوڑ دینے والے بچوں کو محدود مدت کے لیے وضیفوں کے ذریعے سکول واپس لا سکتی ہے، وہیں تعلیم کے میعار کو بہتر بنانے کے لیے سرکاری سکولوں میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا