پنجاب میں کورٹ فیس میں ’بڑے اضافے‘ پر وکلا گذشتہ کئی ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ حکومتی یقین دہانی کے باوجود ان فیسوں میں اضافے کو واپس نہیں لیا گیا ہے۔
صدر لاہور بار مبشر رحمن کے مطابق ’کورٹ فیسوں میں اچانک بڑا اضافہ کیا گیا اور حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ پہلے والی فیس بحال کی جائے گی تاہم تاحال فیس کم نہیں ہوئی جس سے سستے انصاف کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے جبکہ سائلین اور وکلا پریشان ہیں۔‘
ان وکلا کی جانب سے جمعرات کو بھی احتجاجی اجلاس کا انعقاد کیا گیا اور فیس واپسی کے مطالبے کو دوہرایا۔
پنجاب حکومت کے ستمبر 2024 میں کورٹ فیس نوٹیفکیشن کے مطابق سول کورٹ سے حکم نامے یا فیصلے کی مصدقہ کاپی کے لیے ایک بار لی جانے والی فیس کو 10 روپے سے 100 روپے جبکہ ہائی کورٹ سے آرڈر یا فیصلے کی مصدقہ کاپی پر 100 روپے سے فیس 500 روپے مقرر کی گئی ہے۔
پنجاب ٹیننسی ایکٹ 1887 کے تحت بورڈ آف ریونیو یا کمشنرز کو نظرِثانی درخواست اور سی پی سی سیکشن 15 کے تحت ہائی کورٹ میں نظرِثانی کی درخواست پر ون ٹائم 500 روپے کورٹ فیس مقرر کی گئی ہے۔
محکمہ قانون پنجاب کے حکام کے مطابق جون میں کورٹ فیسوں میں جو اضافہ کیا گیا تھا اس پر وکلا برادری کے تحفظات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اعلیٰ سطحی مشاورت کے بعد ستمبر میں کئی فیسوں میں کمی کے بعد نیا نوٹیفکیشن کیا گیا تھا۔ اب کورٹ فیس اسی حکم نامہ کے تحت وصول کی جا رہی ہے۔ اس اضافے کا ایک مقصد جھوٹی درخواستیں دائر کرنے پر قابو پانا بھی تھا۔
کورٹ فیسوں میں اضافے کے اثرات
صدر لاہور بار ایسوسی ایشن مبشر رحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کورٹ فیسوں میں اضافے پر ہمیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ فیسیں کم کی جائیں گی، لیکن ابھی تک فیسوں میں کمی کا مطالبہ پورا نہیں کیا گیا ہے۔
’ہم نے آج (جمعرات) کو اس کے خلاف احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ اس معاملے کو عدالتوں میں بھی چیلنج کر چکے ہیں۔ وہاں بھی حکومت پنجاب نے یقین دہانی کروائی کہ وہ کورٹ فیسوں میں وکلا کی مشاورت سے کمی کریں گے۔ لیکن ابھی تک اضافی فیسیں وصول کی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس معاملے پر دیگر بارز سے بھی مشاورت کر رہے ہیں اس کے بعد موثر حکمت عملی بنائی جائے گی۔ حکومت نے ہمارا مطالبہ پورا نہ کیا تو ہم احتجاج کا دائرہ بڑھا دیں گے۔‘
غریب اور بے سہارا سائلین کو مفت قانونی مدد فراہم کرنے والی عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل کی ڈائریکٹر عالیہ ملک ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے کورٹ فیسوں میں سینکڑوں گنا اضافہ ایک ساتھ ہی کر دیا ہے، جس سے عام آدمی تک سستے انصاف کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سینکڑوں کیسز دائر کرنا ہوتے ہیں، جس سے ہمارا بجٹ کافی متاثر ہوتا ہے کیونکہ مجموعی طور پر فیسوں کی مد میں کافی اضافی فنڈز خرچ کرنا پڑتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ حکومت کی جانب سے دور حاضر کے مالی تقاضوں کے تحت اضافہ کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ اضافہ اتنا ہونا چاہیے کہ عام آدمی کی برداشت میں ہو۔ جتنی فیسیں اب رکھی گئی ہیں ان کی وجہ سے عدالتوں سے رجوع کرنا غریب کے لیے مزید دشوار ہوا ہے۔‘
کورٹ فیس کیا ہے اور کیسے لاگو ہوئی؟
سابق صدر ہائی کورٹ بار مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ متحدہ ہندوستان میں انگریز دور میں عدالتی نظام قائم کیے جانے کے بعد 1870 میں کورٹ فیس ایکٹ کے نفاذ کے ذریعے اس فیس کا اطلاق کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت مختلف کیٹیگریز کی فیس چار آنے (25 پیسے) رکھی گئی تھی جو آج پانچ سو روپے تک پہنچ چکی ہے اور عام سائلین پر بوجھ بن گئی ہے۔‘
’پاکستان میں مختلف ادوار میں کورٹ فیس جو چار آنے سے شروع ہوئی تھی وہ 50 پیسے سے ہوتی ہوئی دو روپے تک پہنچ گئی۔ پچھلی چار دہائیوں سے یہ کورٹ فیس ایک روپیہ اور دو روپے تک پہنچ چکی تھی۔‘
گذشتہ 25 سال سے وکالت کرنے والے مقصود بٹر کہتے ہیں کہ ’ہم نے تو یہ کورٹ فیس دو روپے ہی دیکھی تھی۔ جب ہمیں نصاب میں یہ ایکٹ پڑھایا گیا تو ہمیں پتا چلا کہ اس سے پہلے یہ فیس 50 پیسے تھی، اور تقسیم ہند سے پہلے تو یہ پیسوں میں تھی۔‘
’موجودہ پنجاب حکومت نے صوبائی بجٹ میں فنانس بل کے ذریعے 1870 کے کورٹ فیس ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے مختلف قسم کی 16 کورٹ فیسوں کو بڑھاتے ہوئے 50 روپے سے پانچ سو روپے تک اضافہ کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’درجنوں درخواستیں مقدمے کی سماعت کے دوران دی جاتی ہیں جن کو متفرق درخواستیں کہا جاتا ہے۔ اب ہر درخواست پر سو، دو سو روپے رکھ دیے ہیں اور تو اور وکالت نامہ جمع کروانے کی فیس بھی 100 روپے رکھ دی گئی ہے۔ جو پہلے ایک روپیہ تھی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو سائل کی جیب نچوڑ لی گئی ہے اور وکلا برادری اس کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔‘
سابق صدر ہائی کورٹ بار کے بقول حکومت کی جانب سے کورٹ فیس میں سب سے زیادہ اضافہ طلاق کی درخواست پر ہوا ہے جسے 1000 روپے کر دیا گیا ہے۔