بلتستان کی شہنائی اور بانسری، ختم ہوتا ثقافتی ورثہ

بلتستان کے فنکار غلام مہدی کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں لوگ شادیوں اور دیگر تقریبات میں خاص طور پر دھنیں سننے کے لیے دور دور سے آتے تھے، لیکن اب یہ محض شور شرابا ہے۔

بلتستان کی سرزمین اپنی خوبصورت وادیوں اور قدیم ثقافتی ورثے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں کی ثقافت میں شہنائی اور بانسری بجانے کا فن صدیوں پرانا ہے۔

یہ ساز نہ صرف موسیقی کا ذریعہ ہیں بلکہ خوشی، محبت اور بھائی چارے کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

تاہم بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فن اور آلات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

کبھی بلتستان کے تہواروں اور تقریبات میں شہنائی اور بانسری بجانا ایک لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔

اس فن کے زندہ رکھوالوں میں سے ایک غلام مہدی بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جو شہنائی ہے، وہ ان کی چار پشتوں سے چلی آ رہی ہے۔

اس شہنائی کو شونا کہتے ہیں، جس میں نو مختلف سر ہیں اور ہر سر ایک منفرد دھن پیدا کرتا ہے۔

غلام کے مطابق پرانے زمانے میں لوگ شادیوں اور دیگر تقریبات میں خاص طور پر دھنیں سننے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی موسیقی سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ وہ بانسری ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے اور پہاڑوں پر بھیڑ بکریوں کو بانسری کی دھن سے لبھاتے تھے۔

ان کے مطابق بلتی شہنائی اور بانسری اب صرف چند تقریبات تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں مختلف مواقع کے لیے مخصوص دھنیں ہوتی تھیں، جو موقعے کی نوعیت کو واضح کرتی تھیں۔ مثلاً، شادی کی تقریبات میں بجنے والی دھنوں سے پتہ چلتا تھا کہ یہ بیٹے کی شادی ہے یا بیٹی کی۔

’آج کل یہ فن صرف ایک شور شرابے تک محدود ہو گیا ہے، اور لوگ ان دھنوں کی اصل اہمیت کو نہیں سمجھتے۔‘

غلام اس فن کو زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’شونا اور ڈھول ہمارا بلتی کلچر اور ثقافت ہیں، جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔

’ہم مختلف تقریبات میں یہ ساز بجا کر لوگوں کو خوشی فراہم کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت ختم نہ ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق، بلتستان میں اس وقت صرف دو اہم استاد رہ گئے ہیں: استاد محمد گوٹنگ پا اور استاد کریم بلغاری۔

وہ تجویز دیتے ہیں کہ ان اساتذہ سے تربیت لینے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں تاکہ یہ فن نئی نسل تک منتقل ہو سکے۔

بلتی موسیقی میں حریب کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ غلام بتاتے ہیں کہ شادی کی تقریبات میں حریب بجانے کا خاص انداز لوگوں کو تقریب کی نوعیت کے بارے میں آگاہ کرتا تھا۔

حریب کے مختلف انداز اور اقسام ہوتی تھیں، جنہیں بجانے میں کئی سال کی محنت اور تربیت درکار ہوتی تھی۔

بلتی ثقافت کا یہ اہم حصہ اگرچہ زوال پذیر ہے، لیکن غلام جیسے فنکاروں کی کوششوں سے امید کی ایک کرن باقی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شوقین افراد کو تربیت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ساتھ ہی حکومت اور مقامی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ اس فن کے احیا کے لیے سنجیدگی سے کام کریں تاکہ یہ نایاب ثقافتی ورثہ ختم ہونے سے بچایا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا