ٹک ٹاک ویڈیوز پر غصہ: کوئٹہ میں باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا

پولیس نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں کہا کہ فیملی کو بیٹی کے لباس، طرز زندگی اور سماجی میل جول پر اعتراض تھا۔

بلوچستان پولیس کالج پر عسکریت پسندوں کے حملے کے ایک دن بعد، 26 اکتوبر 2016 کو کوئٹہ میں ہڑتال کے دوران پاکستانی پولیس اہلکار بازار میں بند دکانوں کے سامنے پہرہ دے رہے ہیں (بنارس خان / اے ایف پی)

پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ایک شخص نے اپنی 15 سالہ امریکی نژاد بیٹی کو ٹک ٹاک پر مواد پوسٹ کرنے کی وجہ سے گولی مار کر قتل کر دیا۔

فائرنگ کا یہ واقعہ منگل کو کوئٹہ کی ایک سڑک پر پیش آیا۔

پولیس اہلکار بابر بلوچ کے مطابق امریکہ پلٹ ملزم انوار الحق نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ نامعلوم مسلح افراد نے ان کی بیٹی کا قتل کر دیا تاہم انہوں نے بدھ کو جرم کا اعتراف کیا کہ انہوں نے خود اپنی امریکی نژاد 15 سالہ بیٹی کو گولی مار کر قتل کر کیا تھا۔

پولیس نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں کہا کہ فیملی کو بیٹی کے لباس، طرز زندگی اور سماجی میل جول پر اعتراض تھا۔

پولیس تفتیش کار زہیب محسن نے کہا کہ ’ہماری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیملی کو لڑکی کی لباس، طرز زندگی اور سماجی میل جول پر اعتراض تھا۔ ہمارے پاس ان کا فون ہے اور وہ لاک ہے۔ ہم ’غیرت کے نام پر قتل‘ سمیت ہر پہلو اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔‘

فیملی حال ہی میں امریکہ سے پاکستان کے صوبے بلوچستان واپس آئی تھی، جو ایک قدامت پسند خطہ ہے۔ یہ خاندان امریکہ میں تقریباً 25 سال تک مقیم تھا۔

پولیس افسر نے بتایا کہ انوار الحق کے پاس امریکی شہریت ہے جنہوں نے انہیں بتایا تھا کہ ان کی بیٹی نے امریکہ میں رہتے ہوئے ٹک ٹاک پر ’ناپسندیدہ‘ مواد بنانا شروع کیا تھا۔

انوار الحق نے پولیس کو مزید بتایا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے بعد بھی اس پلیٹ فارم پر ویڈیوز شیئر کرتی رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بابر بلوچ نے کہا کہ مشتبہ شخص کے سسر یعنی مقتول لڑکی کے نانا کو بھی قتل کے معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس نے کہا کہ انہوں نے انوار الحق کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔

فیملی نے روئٹرز کی طرف سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب دینے سے انکار کیا۔

پاکستان میں ٹک ٹاک کے پانچ کروڑ 40 لاکھ سے زائد صارفین ہیں۔ حکومت نے حالیہ برسوں میں کئی بار اس ویڈیو شیئرنگ ایپ کو ’نازیبا مواد‘کے حوالے سے بند کیا ہے۔

حکومت اکثر اس پلیٹ فارم پر ’نازیبا مواد‘ پر اعتراض کرتی ہے اور حالیہ دنوں میں پاکستان کی درخواستوں پر ٹک ٹاک نے مخصوص مواد کو ہٹانے کی پالیسی اختیار کی ہے۔

پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق ملک میں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو ’غیرت‘ کے نام پر خاندان یا کمیونٹی کے اراکین کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان