پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے دو اعلیٰ افسران اور حساس ادارے کے سویلین افسر کو سزاؤں کی توثیق کر دی۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق جاسوسی میں ملوث پاکستانی فوج کے اعلی افسران کا سخت احتساب کیا گیا۔ آرمی افسران اورسویلین افسران کو جاسوسی کے الزام میں سزا سنا دی گئی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاویداقبال کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی جب کہ برگیڈئیر ریٹائرڈ راجہ رضوان اور حساس ادارے میں تعینات سویلین افسر ڈاکٹر وسیم سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مجرمان نے حساس معلومات دوسرے ملکوں کو لیک کی تھیں۔
رواں برس فروری میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ آرمی چیف نے دو اعلیٰ افسروں کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے دونوں فوجی افسر کسی نیٹ ورک کا حصہ نہیں بلکہ انہیں دو مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے۔
فوج میں احتساب کا کیا نظام ہے؟
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی فوج میں افسران کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر مختلف سزائیں دی گئی ہیں۔
سال 2012 میں پاکستانی فوج میں بغاوت پھیلانے اور اقتدار پر ناجائز طریقے سے قبضے کی کوشش کے الزامات کا سامنا کرنے والے بریگیڈیئر علی خان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی مکمل کر کے پانچ سال قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔
گزشتہ برس بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو بھی ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر سزا سُناتے ہوئے ان سے پنشن اور دیگر مراعات واپس لے لی گئیں تھیں۔ تاہم بعض حلقوں کے مطابق انہیں جو سزا ملی وہ کم تھی۔
عسکری ذرائع کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں مختلف رینک پر فائز 400 افسران کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں ہیں جس میں ملازمت سے برخاستگی بھی شامل ہے۔
پاکستانی فوج کے مینیول آف پاکستان ملٹری لا کے مطابق جاسوسی کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ تاہم سزا کا تعین جرم کی نوعیت پر بھی منحصر ہے۔ اس سزا کا تعین فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کرتا ہے۔