بلاول بھٹو فرماتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کو موقع دیا جائے اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اب بھاگنے کا یارا ہے نہ اقامت کی تاب، جاؤں تو کہاں جاؤں۔
بلاول صاحب کو مسند ارشاد میراث میں آئی ہے، کلام کرتے ہیں تو صدا زمزمہ کرتی ہے۔ ہم اہل زمیں کو مگر کم فہمی کا عارضہ لاحق ہے اور ہماری حیرت بھی تماشا بن جاتی ہے۔ دستِ دراز پر کچھ سوالات رکھے ہیں، کوئی جواب آئے تو لعل احمر جانیں۔
تسلیم کہ وقت آ گیا ہے ملک میں حقیقی جمہوریت کو موقع دیا جائے۔ سوال مگر یہ ہے جو وقت گیا ہے، کہاں تھا؟ گئے وقت کی تشریف آوری کی گتھی سلجھے تو سوال یہ بھی ہے کہ حقیقی جمہوریت کس بلا کا نام ہے اور اسے کیسے موقع دیا جائے؟
معلوم نہیں یہ اقوال زریں ہماری قیادت کو بے وقت ہی کیوں یاد آتے ہیں؟حقیقی جمہوریت کا سہرا پڑھنے کا وقت تو وہ تھا جب ایک وصیت کی بنیاد پر ایک جمہوری جماعت کی قیادت ایک نو عمر کو میراث میں جا رہی تھی۔ کیا اس جماعت میں کوئی ایسا رہنما موجود نہ تھا جو قیادت سنبھال سکتا؟
خاندان کی اہمیت اور اس سے وابستہ سیاسی عصبیت سے انکار نہیں۔ لیکن کیا اتنا سا تردد بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا تعین وصیت کی بجائے انتخاب کے ذریعے ہوتا۔ برصغیر کی خستہ فکری راجوں مہاراجوں اور شہنشاہوں کے آسیب سے پھوٹی ہے۔ ایسی گستاخی کا تو کوئی تصور ہی نہ تھا کہ قیادت کے گھرانے کے نونہال پر پارٹی کا ووٹر کسی عامی کو ترجیح دیتا۔ لیکن اس کے باوجود یہ بھاری پتھر کوئی نہ اٹھا سکا۔ ہماری مجال نہیں کہ پیپلز پارٹی کی داخلی سیاست پر انگلی اٹھائیں، ہاں یہ درخواست ضرور ہے کہ ازارہ کرم ہماری رہنمائی فرمائی جائے کہ کیا قیادت کی منتقلی کا یہ طریقہ ’حقیقی جمہوریت‘ کے اصولوں کے عین مطابق تھا؟
پیپلز پارٹی کے پاس اقتدار آیا تو وزارت عظمیٰ پر جناب یوسف رضا گیلانی کو فائز کیا گیا۔ اس انتخاب کے پیچھے کیا ’حقیقی جمہوریت‘ کا اصول کارفرما تھا؟ بھٹو مرحوم کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی اور جیالے ابھی اپنی پشت پر برسنے والے کوڑوں کے درد سہلا رہے تھے کہ یوسف رضا گیلانی نے جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں وزیر ریلوے کا حلف اٹھا لیا۔ جونیجو صاحب والا عذر تو عذر گناہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ اقتدار کا گھنٹا گھر تو جنرل ضیا الحق تھے اور جونیجو تو اقتدار میں ایسے ہی تھے جیسے خواب میں واؤ معدولہ ہوتی ہے۔ یہ کیسی ’حقیقی جمہوریت‘ تھی کہ قربانیاں دینے والے کارکنان پر ضیا الحق کے وزیر کو ترجیح دی گئی؟
حقیقی جمہوریت کا سہرا کہنا بھی بڑے نصیب کی بات ہے لیکن اس سوال کا کیا جواب ہے کہ خود پیپلز پارٹی میں کتنے کلوگرام جمہوریت پائی جاتی ہے؟ قریب پورے پاکستان میں اس جماعت کا انتظامی ڈھانچہ موجود ہے، لیکن کیا ملک بھر میں پارٹی کے تنظیمی عہدوں پر انتخاب کے ذریعے لوگ فائز ہوتے ہیں یا آقائے ولی نعمت جسے اپنے حضور طلب فرما کر خلعت سے نواز دیتے ہیں، وہی پارٹی کا عہدیدار بن جاتا ہے؟
کیسا سفاک حسن اتفاق ہے کہ سیاسی جماعتوں میں الیکشن لازمی قرار دینے کا فیصلہ ایک آمر پرویز مشرف نے کیا۔اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک سے زیادہ مرتبہ اقتدار میں آئیں لیکن اپنی جماعتوں میں انتخاب کی قانون سازی نہ کرسکیں؟ کیا یہ رویہ ’حقیقی جمہوریت‘ تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشرف کی قانون سازی کے ذریعے پارٹی الیکشن جب ایک قانونی ضرورت بن گیا تو سیاسی جماعتوں نے بادل نخواستہ یہ ضرورت تو پوری کی لیکن یہ مشق نا معتبر ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہوتی تھی۔ بلاول کی غیوریِ جمہوریت اپنی جگہ لیکن وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا پارٹی انتخابات پاکستان کے عام انتخابات سے کسی بھی درجے میں معتبر ہوتے ہیں؟ جیسا شفاف الیکشن آپ ملک میں چاہتے ہیں ویسا شفاف الیکشن آپ اپنی جماعتوں میں کیوں نہیں کراتے؟ جمہوریت جاڑے کی شبنم تو نہیں ہوتی کہ راتوں رات اتر آئے۔ یہ تو ایک رویہ اور طرز حیات ہے۔ جماعتوں میں نہیں آئے گا تو قومی سطح پر کہاں سے آئے گا؟
دروغ بر گردن راوی، حقیقی جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لیے بنائی گئی ہو اور عوام کے ذریعے بنائی گئی ہو۔ اس پارلیمان میں آخر کتنے ہیں جن کے نام ’عوام‘ کی تہمت دھری جا سکے؟ عوام پر تو حکمت عملی کے ذریعے پارلیمان کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن اتنا مہنگا ہو چکا کہ عام آدمی خواب میں بھی اس کا تصور نہیں کرسکتا۔
پارٹی ٹکٹ بھی الیکٹیبلز کی بلائیں لیتا ہے اور سینیٹ کو جاتے کہکشاں جیسے راستے پر بھی تجوریوں کے سنگ میل ایستادہ ہیں۔ نہ یہ ’عوام کی‘ہے نہ یہ ’عوام کے لیے‘ ہے۔ بلاول ہی رہنمائی فرمائیں کہ کیا پارلیمان کے اس کشتہِ نارسائی کو حقیقی جمہوریت کہا جائے گا؟
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اسی کی چشمِ مست سے فیصلے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سندھ میں کتنے درجن ’حقیقی جمہوریت‘ آ چکی ہے۔ سندھ کے لوگ اگر آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے نہ ہوں تو اس سے یہ حقیقت تو تبدیل نہیں ہوسکتی کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت سے معاملات اب صوبوں کے حوالے ہو چکے ہیں اور ہر سوال کا مخاطب عمران نہیں، کچھ سوالات آپ کی دہلیز پر بھی رکھے ہیں۔
جمہوریت قول و فعل کے تضاد کی سان پر رکھے اقوال زریں سے نہیں آتی۔ یہ گھر سے شروع ہوتی ہے اور جو گھر سے شروع ہوتی ہے، وہی حقیقی جمہوریت ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔