اس سال کے آخری ایام میں نیب کا ادارہ جو کہ وزیراعظم عمران خان کے فلیگ شپ منصوبے کا سرکردہ ادارہ ہے وہ اپنی پرانی کمزوریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا دکھائی دیتا ہے، حالانکہ اس کی اہمیت آنے والے دنوں میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بہت زیادہ بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
اب جو نئی سیاسی کہانیاں گردش کر رہی ہیں ان میں سے ایک مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کی واپسی کی بھی ہے۔ اس کے ساتھ جڑی ہوئی سپریم کورٹ بار کونسل کی پٹیشن کسی بھی شخص کی عمر بھر کی نااہلی کے خلاف ہے۔ اس میں بھی نیب کا ایک اہم کردار ہوگا۔
اس وقت سب سے تازہ معاملہ نیب کے چیئرمین کی تعیناتی کا ہے۔ موجودہ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال اکتوبر میں اپنی معیاد پوری کر چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے نئے چیئرمین کی تعیناتی کا معاملہ تاخیر کا شکار ہے۔ حکومت نے جو حالیہ متنازعہ آرڈیننس پاس کیا اس کے تحت صدر عارف علوی کو وزیراعظم اور حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف سے نئے چیئرمین کے نام کے حوالے سے مشورہ کرنا لازمی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق دو ہفتے قبل وزارت قانون نے صدر کو ایک سمری بھیج دی تھی لیکن اب تک عارف علوی جو عموما ذمہ داریوں کو بروقت پورا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں نیب کے چیئرمین کی تعیناتی پر اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ ابھی تو اس معاملے پر آگے بھی کافی وقت لگے گا۔ مثلا اگر اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کے درمیان معاملات طے نہ پائے تو پھر نئے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے ایک بارہ رکنی کمیٹی بنے گی جو چیئرمین کے نئے ناموں پر غور کرے گی۔ لہذا یہ معاملہ کوئی جلد حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
بہرحال بظاہر جو صدر کی جانب سے تاخیری معاملہ لگتا ہے وہ شاید دراصل زیادہ پیچیدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم اور ان کے قریبی مشیر نیب کے لیے نیا چیئرمین چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم کے کچھ قریبی مشیر وں کی رائے یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین کی مدت کسی بہانے مزید بڑھا دی جائے۔
یہ کوئی حیران کن بات نہ ہو کیوں کہ موجودہ نیب چیئرمین نے جہاں اپوزیشن کے خلاف بہت سے کیسز داغے ہیں وہاں اہم حکومتی شخصیات پر معاملات کو کچھ ڈھیلے پن، کچھ سستی سے ہی آگے بڑھایا ہے۔ مثلا وفاقی وزیر خسرو بختیار، غلام سرور کے خلاف نیب مقدمات کھلے ہیں ان پر ایکشن اس تیزی کے ساتھ نہیں ہو رہا جیسا کہ اپوزیشن کے مقدمات میں ہو رہا ہے۔
ایک اہم پیش رفت مالم جبہ کیس میں نومبر میں ہوئی۔ نیب چیئرمین کی ارسال کردہ درخواست پشاور کی احتساب عدالت کے جج شاہد خان کو موصول ہوئی۔ نیب چیئرمین نے اپنی درخواست میں عدالت کو اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ مالم جبہ کیس میں تمام معاملات قانون کے مطابق ہیں اور اس وجہ سے یہ کیس بند کر دیا جائے۔ مالم جبہ کے کیس میں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے خلاف تفتیش کی جا رہی تھی۔
نیب کی کارکردگی پر پاکستان کی عدالتیں، سیاست دان اور غیرجانبدار تجزیہ نگار تواتر کے ساتھ تنقید کرتے رہے ہیں۔ یہ کچھ عجب نہیں کہ وزیراعظم کے کچھ اصول پسند مشیر بھی اس تنقید کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب کا طریقہ کار جس میں وہ بیسیوں کیس یکدم کھولتے ہیں اور ان کی تحقیقات اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ وہ اعلی عدلیہ کو بھی تنقید پر مجبور کرتی ہے۔
مثال کے طور پر حال ہی میں کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الحسن نے الحبیب کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ نیب دس سال پرانے مقدمات کیا سلجھا سکی۔ جسٹس اعجاز نے شکایت کی کے نیب اور ایف آئی اے ریاست کے دو اہم ستون ہیں لیکن دونوں میں انتہا کا بگاڑ آ چکا ہے۔ کیس کے بارے میں نیب نہ کوئی دلچسپی لے رہا ہے اور نہ ہی نیب کے پاس حقائق موجود ہیں۔
عام طور پر تنقید کی نوعیت یہی ہے لیکن نیب پر جیسے کوئی اثر ہی نہیں پڑتا۔ دوسری طرف حکومت کو ملاحظہ فرمائیں۔ وہ نہ صرف نیب کے چیئرمین کی تعیناتی کو طول دیتی ہوئی نظر آ رہی ہے بلکہ نیب کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے اس نے چیئرمین کو ہٹانے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ پہلے نیب کے چیئرمین کو سپریم جوڈیشل کونسل ہی نکال سکتی تھی لیکن اب صدر ان کو برطرف کر سکتے ہیں۔ صدر مملکت کے معنی دراصل میں وزیراعظم ہیں کیوں کہ صدر حقیقی اور سیاسی طور پر وزیراعظم کے کہنے پر ہی اہم فیصلے کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب کا جو طریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس میں وزیراعظم عمران خان اس مہم کی قیادت خود ذاتی طور پر کر رہے ہیں۔
ایک طرف انہوں نے ماضی کے سیاسی حکمرانوں اور اشرافیہ کی کرپشن پر گہری تنقید کرتے ہوئے اس کرپشن سے ملک کو بھاری معاشی اور اخلاقی نقصانات کی نشاندہی صحیح بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا احتساب کی اس مہم میں پاکستان کے لوگوں اور پاکستان نے کیا حاصل کیا ہے؟ احتساب کی اہمیت پر جتنا اصرار کیا جائے اتنا ہی کم ہے لیکن سوال تو طریقہ کار کا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیب کتنی اہلیت کے ساتھ کتنی غیر جانبداری کے ساتھ اور کتنے انصاف کے ساتھ کام کر رہا ہے؟ معاملہ نواز شریف یا آصف علی زرداری کا ہرگز نہیں۔ جو لوگ حکومت میں آتے ہیں جو اختیارات استعمال کرتے ہیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہوں یا یقینی طور پر کسی بھی ادارے سے ہیں چاہے فوج، عدلیہ ہو احتساب تو سب کا ہونا چاہیے۔ اگر پاکستان کی عدلیہ بشمول اعلی عدلیہ سپریم کورٹ نے بارہا نیب کیسز میں چاہے سعد رفیق کا ہو یا خاقان عباسی کا ان کے بارے میں اہم شواہد مہیا نہیں کر سکا ہے۔ عدالت کا برہم ہو کر یہ بھی کہنا تھا کہ لگتا ہے آپ شاید نیب کیسز کو سیاسی انجینرنگ یعنی سیاسی توڑ پھوڑ اور جوڑ توڑ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
لیکن عجب بات ہے جتنا وزیراعظم بس احتساب کی اہمیت اور ضرورت کی بات کرتے ہیں اتنا ہی وہ اس نہایت اہم ایجنڈا آئٹم کو صحیح طریقے سے، قانون پسند اور انصاف پسند طریقے سے آگے بڑھاتے ہوئے دکھائی کیوں نہیں دیتے ہیں۔ وہ احتساب کرنے والے ادارے اور اس کے اہم عہدے داروں کو صحیح سمت لے جاتے ہوئے نظر کیوں نہیں آتے۔ آخر نیب کے حالیہ آرڈیننس وزیراعظم کی مرضی ہی سے تیار کروا کر پاس کیے گئے ہیں۔ وہ آرڈیننس نیب کو یقینی طور پر غیرجانبدارانہ احتساب کرنے کے لیے تیار نہیں کیے گئے۔ وہ آرڈیننس تو سیاست کے کھیل میں نیب کو شاید ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔
آخر عدلیہ کی بات بھی وزیراعظم سن لیں، ان کے سوال کا جواب دے دیں۔ کیا نیب بس سیاسی انجینرنگ کے لیے ہی استعمال ہوگا یا پھر صاف اور شفاف احتساب کے لیے؟