وزیر اعظم عمران خان خود کو چیتا کہلوانا پسند کرتے ہیں، جو کہ گوشت خور جانور ہے اور چیر پھاڑ پر یقین رکھتا ہے لیکن اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی سے تعلقات کے معاملے پر وہ بے ضرر امن کی فاختہ کی پہچان کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
ہندوستانی وزیر اعظم کی جیت میں ان کی دلچسپی ان سٹہ بازوں سے بھی کہیں زیادہ تھی جو کرہ ارض پر اس طویل ترین جمہوری چناؤ کے نتائج کو دھندے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے نجانے کس خارجہ پالیسی کی دانش مندی کے تحت یہ طے کیا کہ ہندو انتہا پسند جماعت کے نمائندے کی جیت بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے حل میں ڈھل جائے گی۔
انہوں نے فاختائی ڈھانچے کی عقابی روح کو تب بھی بیدار رکھا جب دہلی کی طرف سے نریندر مودی کی تقریب حلف برادری میں ان کو دعوت نہ بھیجی گئی۔
جھینپنے کے بجائے وہ امن کے لیے پھر سے کوشاں ہو گئے اور ایک خط لکھ ڈالا، جس میں انہوں نے نریندر مودی کے ساتھ مل کر برصغیر میں تبدیلی حالات کی ایک زبردست تصویر کشی کی۔
ایسی ہی تحریر شاہ محمود قریشی نے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کو بھی بھیجی اور اپنے لیڈر کی طرح ان کو وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دی۔
ان خطوط کے نیک جذبات وہی ہیں جو وزیر اعظم عمران خان اپنے ان گنت ٹویٹس کے ذریعے اس سے پہلے کئی بار سرحد پار بھجوا چکے ہیں۔ بشمول اس ٹویٹ کے جس میں انہوں نے وراٹ کوہلی کی ٹیم کو آسٹریلیا میں کرکٹ سیریز جیتنے پر مبارک باد دی تھی۔
ظاہر ہے کون کافر چاہے گا کہ ہندوستان سے خواہ مخواہ جنگ ہو۔ اگر بات چیت کے ذریعے دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ لڑائی میں تو بس نقصان ہے۔
بھلائی اسی میں ہے کہ مصافحہ کیا جائے، بغل گیر ہوں اور ایک گھاٹ سے پانی پییں۔ مگر بدقسمتی سے عمران خان کی امن کی تان کا کوئی ہمنوا ہندوستان میں اس وقت نظر نہیں آتا۔
کبھی کبھار ایک آدھ مسکراہٹ اور دوستانہ جملہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن عملاً دہلی نے بے اعتنائی اپنائی ہوئی ہے، وہ بد سگالی کا شیوہ ترک نہیں کر رہا نہ ہی بدزنی چھوڑنے پر تیار ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مظالم عروج پر ہیں اور اب سنگینوں کے سائے تلے وہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل کر کے سیاست کا رخ موڑنے کے لیے اپنایا گیا لائحہ عمل اپنے نقطۂ عروج پر ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا فورم ہو یا اقوام متحدہ میں اکٹھ، نریندر مودی کے تحت چلنے والا نظام اسلام آباد کو ہر جگہ بے آبرو کرنے پر مامور ہے۔
اگرچہ آج کل ہم حقیقت میں کلبھوشن یادیو کا نام لینے سے کتراتے ہیں اور افغان انٹیلی جنس کے را کے ساتھ گٹھ جوڑ کو شہ سرخیوں کے ذریعے اجاگر نہیں کرتے لیکن کئی ماہ پہلے دیے گئے بیانات تو یہی تھے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے کابل اور دہلی کا جڑا ہوا ہاتھ ہے۔
ہمارے سفارت کاروں کو تنگ کرنے سے لے کر گلوکاروں اور اداکاروں کو ٹھڈے مارنے تک زندگی کا ہر پہلو ہندوستان کی طرف سے بد خصلتی کی گواہی دیتا ہے ۔
نریندر مودی اور اس کی جماعت پاکستان کے خلاف بدترین پالیسی اپنا کر دوسری مرتبہ ایک شاندار سیاسی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
ان کے زاویۂ نگاہ سے پاکستان سے دشمنی ایک بہترین سیاسی سرمایہ کاری ہے۔ جتنا زہر گھولیں گے اتنا ہی اچھا تولیں گے۔ پاکستان کو نیچے لگانا اگر بہترین سیاسی اڑان کا باعث بن سکتا ہے تو وہ اس پالیسی کو کیوں کر ترک کریں گے؟
بین الاقوامی طور پر ہندوستان کشمیر سمیت دوسرے خارجی اور دفاعی امور پر خود کو بہتر حالت میں محسوس کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ حتیٰ کہ ہمارا پیارا بھائی چین اس کو آڑے ہاتھوں نہیں بلکہ ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔
معیشت مستحکم ہے اور سیاسی ستارہ عروج پر ہے۔ ایسے میں کیا مجبوری ہے کہ نریندر مودی پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے ہانپتا کانپتا پھرے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ برطانیہ، امریکہ، چین، سعودی عرب اور یو اے ای مل کر نریندر مودی کو یہ مشورہ ضرور دیتے ہیں کہ حالات مزید خراب نہ کریں اور امن کے لیے تھوڑی سی گنجائش پیدا کریں۔
یہ ’تھوڑی سی گنجائش‘ وہ امید ہے جس پر وزیر اعظم عمران خان اوران کے مرشد تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ اگر ہم مشرقی سرحدوں پر جنگ کی کیفیت میں کمی کر لیں اور مغربی سرحد پر افغان بات چیت عمل کے ذریعے کشیدگی میں تخفیف ہو جائے اور پھر اگلے تین چار سال میں معیشت جادوئی انداز سے ترقی کی راہ پر پڑ جائے تو پاکستان اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا ہو سکتا ہے بلکہ تیز رفتاری سے اپنے نقادوں کو کچلتا ہوا آگے نکل سکتا ہے۔
اچھی سوچ پر کوئی پابندی نہیں۔ بہتری کی توقع پر کائنات قائم ہے لیکن یہ تصور بے بنیاد ہے کہ دنیا ہمیں خود انحصاری حاصل کرنے کے لیے تمام مواقع فراہم کرے گی۔
وہ دشمن ہی کیا جو مخالف کو طاقت ور ہونے دے۔ غربت کے خاتمے اور امن میں شراکت داری کے منصوبے باتوں کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن عملی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ نریندر مودی روزانہ صبح اٹھ کر آشرم میں برصغیر کی غربت کے خاتمے کی دعائیں مانگتا ہے؟ وہ سیاست دان ہے اور کامیابی حاصل کرنے کے ہر راستے کو اپنانے میں ماہر ہے جو اس کی طاقت میں اضافے کا باعث بھی بنے اور اپنے مخالفین کو، چاہے ملک کے اندر ہوں یا باہر، شکست بھی دے۔
لہٰذا یہ سمجھنا کہ ہم محبت نامے بھیج بھیج کر مودی کا موڈ ٹھیک کر لیں گے، اعلیٰ درجے کی سفارتی حماقت ہے۔
نریندر مودی صرف اس صورت میں پاکستان سے بات کرے گاجب ہم دہشت گردی کی اس تعریف کو مان لیں گے جس کے مطابق افغانستان، ہندوستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے تمام واقعات کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد ہوتی ہے۔
ہندوستان کی حکومت یہ چاہے گی کہ پاکستان پر واقعات اور حالات کا دباؤ اتنا بڑھے کہ اس کے پاس دہلی کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو۔ بدقسمتی سے وزیر اعظم عمران خان کے یکطرفہ امن پیغامات سے بے چارگی اور لاچاری کی بو آنے لگی ہے، جو کسی طور بھی ملکی مفادات کے حصول میں معاون نہیں ہیں۔
پاکستان کے استحکام کا راستہ سرحدوں پر کشیدگی کی کمی سے نہیں جڑا ہوا۔ یہ وہ سڑک ہے جس کا آغاز اور اختتام اندر کے حالات سے منسلک ہے۔ معیشت کو متنازع تجربات کی قربان گاہ میں لا کر مستقبل پر اضافی سوالیہ نشان پیدا کر دیے گئے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا چنگل، مانگے تانگے پیسوں سے خزانے میں اضافہ، مہنگائی کا طوفان، نوکریوں کا فقدان اور معیار زندگی کی گراوٹ ایک خوفناک صورت حال کو جنم دے رہی ہیں، جس پر حکومتی حلقوں میں نہ تو کوئی توجہ دینے پر تیار ہے اور نہ الزامات کی سیاست سے بلند بحث پر مائل۔
سیاسی میدان میں کشت و خون کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں پر غداری اور ملک دشمنی کی سیاہی لگا کر ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے مگر نریندر مودی کو دوستی اور محبت کے پیغامات سے رام کرنے کی سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔
یعنی جو پاکستان میں رہتا ہے اور اس کے آئین کے تابع ہے لیکن سیاسی طور پر قابل قبول نہیں، وہ غدار ہے اور جو ہندوستان کی عظمت اور ترقی کے لیے پاکستان کو تہس نہس کرنے سے نہیں چوکتا اس سے گہرا پیار ہے۔
یہ وہ غیر منطقی منافقت ہے جس نے اس ملک کو بھنور میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ جس ملک کے عوام کراہ رہے ہوں اور جس کے حکمران اپنے مخالفین کی چیخیں نکلوا کر راحت محسوس کرتے ہوں اس کے امن کے پیغامات کو کون سنجیدگی سے لے گا؟
پاکستان کے استحکام کے لیے نریندر مودی کے دربار میں بے وقعت پیغام بھجوانے کے بجائے اپنا چاک گریبان سینے کی ضرورت ہے۔