2019 کرکٹ ورلڈ کپ میں بد قسمتی سے بارش ہی مرکز نگاہ بن گئی ہے اور میری نظر میں گزشتہ 30 برسوں میں اگر کھیلوں کے کسی ایونٹ کی بات کی جائے تو حالیہ عالمی کپ میں سب سے زیادہ ناقص منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔
اگلی چند سطور میں، میں واضح کروں گی کہ کس طرح اس میگا ایونٹ کے حوالے سے صحیح حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی۔
میں ان افراد میں سے ہوں جو انگلینڈ میں کرکٹ بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کرکٹ ہر لحاظ سے خوبصورت نظر آتی ہے۔ یہاں پر کاسموپولیٹن تماشائی کھیل دیکھنے آتے ہیں اور کرکٹ کھیلنے والے تقریبا تمام ملکوں کے حامیوں کی برطانیہ میں ایک معقول تعداد ہے۔
رواں ورلڈ کپ میں بھی تمام ملکوں سے تعلق رکھنے والے شائقین کی ایک بڑی تعداد میدانوں میں میچ دیکھنے آ رہی ہے جس سے تمام ٹیموں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے ہی ملک میں کھیل رہی ہوں۔
گراؤنڈ اتنے خوبصورت ہیں کہ دیکھنے والے کو بہشت کے کسی میدان کا نظارہ معلوم ہوتا ہے۔
یہاں سہولیات سب سے اعلیٰ ہیں، لیکن موسم نے سب خوبیوں پر پانی پھیر دیا۔ اب تک ٹورنامنٹ کا ہر میچ موسم سے تھوڑا بہت متاثر ہوا ہے۔
جب میں یہ کالم لکھ رہی تھی تو اسی دوران ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے درمیان میچ بھی منسوخ ہو گیا اور نہ جانے اس کے شائع ہونے تک کتنے اور منسوخ ہو جائیں۔
آج کے دور میں جب موسم کے لیے مخصوص سیٹلائٹس موجود ہیں تو یہ بات میری سمجھ سے یہ بالاتر ہے کہ ایونٹ انتظامیہ نے کیسے اس قدر ناقص منصوبہ بندی کی۔
میچوں کے لیے جن مراکز کا انتخاب کیا گیا وہاں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر لیڈز جوانگلستان کے شمال میں ہے۔ اس علاقے میں ہمیشہ بارش ہوتی رہتی ہے۔ مانچسٹر لیڈز کے بالکل قریب واقع ہے اور دونوں کے درمیان ایک گھنٹے کی مسافت ہے۔
اس لیے یہ واضح تھا کہ ان دو میدانوں میں میچوں کے دوران مسائل آئیں گے۔ خصوصا پاکستان اور افغانستان کے درمیان میچ اور پاکستان کا ٹاؤنٹن میں آسٹریلیا کے خلاف میچ بھی موسم کی نذر ہونے کا خدشہ ہے۔
ابھی تو ورلڈ کپ کی ابتدا ہے اور کئی میچ موسم کے باعث متاثر ہو بھی چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
پاکستان ۔ آسٹریلیا میچوں کے دلچسپ اعداد و شمار
پاکستان کا شاندار کم بیک کیسے ممکن ہوا؟
پہلے ہفتے میں دو میچ منسوخ ہوئے اور میرے خیال میں یہ حقیقی طور پر شرمندگی کا مقام ہے۔ بعض لوگ یہ دلیل دیں گے کہ موسم پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ میں کہتی ہوں کہ آج کے جدید دور میں ٹیکنالوجی نے مستقبل میں موسم کی پیش گوئی کو ممکن بنا دیا ہے۔ اگر بہتر منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو صورتحال اس سے کہیں بہتر ہوتی جس کا ابھی ہمیں سامنا ہے۔
میری رائے میں ورلڈ کپ کا آغاز پہلے ہونا چاہئے تھا یا 15 جون کے بعد۔ میں ’راؤنڈ روبن‘ کے فضول فارمیٹ کی بھی حامی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ ٹورنامنٹ چھ ہفتے طویل عرصے پر محیط ہے۔
میری رائے میں ٹورنامنٹ میں پانچ پانچ ٹیموں پر مشتمل دو گروپ ہونے چاہئیں۔ ان گروپوں کی ٹیمیں آپس میں کھیلیں اور آخر میں دونوں گروپوں کی سب سے بہترین ٹیمیں سامنے آ جائیں گی۔
ان میں سے پہلے چار نمبروں پر آنے والی ٹیمیں سیمی فائنل کھیلیں اور اس طرح دو ٹیمیں فائنل میں پہنچیں۔
اس طرح ٹورنامنٹ میں 48 میچوں کے بجائے 23 میچ ہوتے اورچھوٹا ٹورنامنٹ مئی کے وسط میں شروع ہونا ممکن تھا جو جون کے پہلے ہفتے میں انگلینڈ میں بارشوں سے پہلے ختم ہو چکا ہوتا۔
دوسری صورت میں یہ ایونٹ 15 جون سے 5 جولائی کی تاریخوں کے درمیان کھیلا جا سکتا تھا۔
اب پاکستان کے لیے اہم میچ آسٹریلیا کے خلاف ہے۔ اس سے پہلے پاکستان سری لنکا کے خلاف میچ منسوخ ہونے کے باعث قیمتی پوائنٹ گنوا چکا ہے کیونکہ موسم نے پاکستان اور سری لنکا کا میچ شروع ہی نہیں ہونے دیا۔ پاکستان کی ٹیم اچھی فارم اور مومینٹم میں تھی کیونکہ انہوں نے ٹورنامنٹ کی سب سے بہترین ٹیم انگلینڈ کو زیر کیا تھا۔
سری لنکا کے خلاف میچ بارش کے باعث منسوخ ہونے سے پاکستان کے یقینی پوائنٹس ضائع ہوئے۔ ممکنہ طور پر ٹورنامنٹ میں اس وجہ سے پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سری لنکا کے خلاف پاکستان کے پاس رن ریٹ بڑھانے کا اچھا موقع تھا جو اس وقت چوٹی کی ٹیموں سے بہت کم ہے۔
اب لگتا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف بھی پاکستان کا میچ بارش کے باعث منسوخ ہو جائے گا۔ اس وقت تک میچ مکمل ہونے کی امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں، اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان ٹورنامنٹ کے منتظمین سے خفا ہونے میں حق بجانب ہو گا۔
چلیں فرض کرتے ہیں کہ موسم صاف ہوا اور پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان میچ ہو جاتا ہے تو آسٹریلیا جیسے مضبوط حریف کو ہرانے کا موقع میسر آ جائے گا۔
آسٹریلیا بھارت کے خلاف اپنے آخری میچ میں بری طرح ایکسپوز ہوئے۔ بھارت نے مچل سٹارک، پیٹ کمنز اور ایڈم زمپا جیسے بولروں کا سامنا کرتے ہوئے 350 رنز بنائے۔
بھارتی ٹیم نے ثابت کر دیا کہ اگر نئی گیند کے سامنے وکٹ گنوائے بغیر شروع میں پانچ کی اوسط سے سکور بنائے جائیں تو گیند پرانی ہونے تک بلے باز انگلینڈ کی ان پچوں پر بہت بڑا سکور کر سکتے ہیں، جس کا اعلی بولنگ، اچھی کپتانی اور ٹاپ کلاس فیلڈنگ سے دفاع کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی بولروں کو ڈیوڈ وارنر پر اٹیک کرنا چاہیے۔ ان کی کارکردگی اب ایسے نہیں رہی جیسے پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ اب انہیں دیکھ کر شیکسپیئر کا مشہور کردار میکبتھ ذہن میں آتا ہے۔
وارنر کا میکبتھ سے موازنہ اس لیے کر رہی ہوں کہ گزشتہ سال بال ٹیمپرنگ کے باعث ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ انہیں بہت زیادہ شرمندہ کرنا پڑا تھا اور مجھے لگتا ہےکہ وہ ابھی تک اس احساس شرمندگی سے باہر نہیں نکل پا رہے۔
اگرچہ وہ اب بھی سکور بنا رہے ہیں مگر پہلے جیسے نظر نہیں آ رہے جو کبھی میچ کا پانسہ پلٹ دیا کرتے تھے۔ میں یہ کہنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ وہ جسمانی سے زیادہ ذہنی طور پر عالمی کرکٹ کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ایک اور کمزور کردار نیتھن کانٹ نائیل ہیں جو پانچویں بولر کے طور پر کھیلیں گے اور وہ باقاعدہ ایکسپریس تیز بولر نہیں ہیں۔
وہ دباؤ میں بطور بلے باز اور بولر کے طور پر ایک آسان ہدف ہیں۔ ایڈم زمپا کو اگرچہ لیگ سپنر میں پسند کرتی ہوں لیکن سب کو معلوم ہے کہ وہ گیند کو زیادہ گھما نہیں سکتے۔
اس طرح جب پاکستانی بلے بازوں پر نئی گیند کا دباؤ ختم ہو گا تو وہ زمپا کو بہت آسانی سے ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ نئی بال کے خلاف وکٹیں نہ گنوائی جائیں۔ مڈل اوورز میں بولنگ کرانے والے آسٹریلین بولرز کے خلاف آسانی سے رنز بنائے جا سکتے ہیں۔
یہ بہت اہم ہو گا کہ وکٹ نہ گنوائی جائیں اور کمزور بولرز کے آنے کا انتظار کیا جائے۔
جب آسٹریلیا بیٹنگ کر رہا ہو تو پاکستانی سپنرز سکور کو تیزی سے بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔ نان ریگولر سپنرز کے ساتھ شاداب خان ہمارے لیے ترپ کا پتا ثابت ہو سکتے ہیں جیسے کہ بھارت کے سپنر ہوئے ہیں۔
میری نظر میں ٹاس بہت اہم ہو گا اور ٹاس جیتنے کی صورت میں پہلے بیٹنگ کر کے بڑا سکور کیا جائےاور پھر اس سکور کا دفاع کیا جائے۔ لیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب بارش کھیل ہونے دے۔
پاکستان کے لیے آسٹریلیا سے جیتنا اتنا آسان نہیں کیونکہ پانچ مرتبہ عالمی چیمپئین بننے والی ٹیم ذہنی طور پر بہت مضبوط ہے۔
اس کے علاوہ انہیں بھارت سے شکست کا غصہ بھی ہے۔ اصولی طور پر انہیں یہ میچ جیتنا چاہیے تھا۔ وارنر نے سست ترین اننگز کھیل کر تنہا بھارت کو ہرانے کے امکانات کو تباہ کیا۔ مجھے یقین ہے کہ زخمی شیر کی طرح وہ اگلا میچ جیتنا چاہتے ہیں تاکہ پچھلے میچ کی شکست کو بھلایا جا سکے۔ اس لیے آسٹریلیا پاکستان کے خلاف خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔
تاہم مجھے خدشہ ہے کہ اس ورلڈ کپ کو خراب موسم کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ میری دعا ہے کہ سورج انگلستان کے کرکٹ میدانوں میں باقاعدگی سے چمکے اور اپنی روشنی کے ساتھ ناامیدیوں کی گھٹائیں جو ابھی تک اس ٹورنامنٹ پر چھائی رہی ہیں کو دور کر دے تاکہ شائقین کرکٹ مایوس ہونے سے بچ جائیں۔