صحافی مطیع اللہ جان کو آج (جمعرات) پولیس نے اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جہاں ان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
صحافی مطیع اللہ جان کے بیٹے کی جانب سے ان کے والد کے گزشتہ رات ’نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا‘ کے بیان کے بعد اسلام آباد پولیس کی جانب سے ان کے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر منظر عام پر آئی تھی۔
مطیع اللہ جان کے صاحبزادے عبدالرزاق نے اپنے والد کے ایکس اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے بتایا کہ ’میرے والد کو رات ساڑھے گیارہ بجے ایک اور صحافی ثاقب بشیر کے ہمراہ نامعلوم افراد، نامعلوم گاڑیوں میں اٹھا کر لے گئے۔‘
مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی کئی گھنٹوں کے بعد اسلام آباد پولیس کی جانب سے ان کے خلاف ایف آئی آر سامنے آئی۔
ایف آئی آر جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے میں بتایا گیا ہے کہ ’رات دو بج کر 15 منٹ پر ایف 10 کی جانب سے ایک تیز رفتار گاڑی آئی جسے روکنے کا اشارہ کیا گیا تو اس نے گاڑی وہاں ناکے پر موجود اہلکاروں پر چڑھا دی۔‘
صحافی ثاقب بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ احتجاج کے دوران زخمی اور اموات سے متعلق سامنے آنے والے ڈیٹا کو کراس چیک کرنے کے لیے مطیع اللہ جان کے ساتھ پمز ہسپتال میں بدھ کی صبح ہی سے موجود تھے کہ لگ بھگ ساڑھے گیارہ بجے رات کو جب وہ وہاں سے نکل رہے تھے تو کار پارکنگ سے نامعلوم افراد انہیں زبردستی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ دیر گاڑی چلتی رہی اور پھر ہمیں ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ مجھے لگ بھگ سوا دو بجے انہوں نے کہا کہ آپ سے ہمارا کوئی معاملہ نہیں ہے اور پھر ایک گاڑی میں بٹھا کر آئی نائن سیکٹر میں چھوڑ کر چلے گئے۔‘
ثاقب بشیر نے کہا کہ ’تمام وقت ان کا چہرے پر کپڑا ڈالے رکھا گیا لیکن ’کوئی سوال نہیں کیا گیا۔‘
صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ جب وہ لگ بھگ سوا تین بجے گھر پہنچے تو انہوں نے مطیع اللہ جان کے گھر اطلاع دی۔
مطیع اللہ جان کے بیٹے عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ ’لے کر جانے والوں نے اپنا کوئی تعارف نہیں کروایا کہ آیا وہ ہیں کون۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب ان کی (مطیع اللہ جان) کی اسلام آباد میں احتجاج کی دلیرانہ کوریج کے بعد ہوا ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’میرے والد کو فوری چھوڑ دیا جائے اور ان کے گھر والوں کو ان کے بارے میں فوراً آگاہ کیا جائے۔‘
ثاقب بشیر نے کہا کہ انہوں نے تاحال پولیس میں کوئی رپورٹ درج نہیں کروائی۔ ’انتظار کر رہا ہوں کہ شاید پولیس کسی کیس میں مطیع اللہ جان کی گرفتاری ڈال دے‘ اور اس کے بعد ہم کچھ کریں گے۔
پولیس کی جانب سے درج مقدمے کے مطابق بعد میں گاڑی روکنے پر ایک شخص ڈرائیونگ سیٹ سے اترا جس کے شناحت مطیع اللہ جان ولد عبدالرزاق خان عباسی کے نام سے ہوئی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف آئی آر کے مطابق ’سرسری ملاحضہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص نشے کی حالت میں تھا اور گاڑی کی تلاشی لینے پر سیٹ کے نیچے سے آئس بھی برآمد ہوئی۔‘
اس سے قبل اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی احمد سے جب انڈپینڈنٹ اردو سے پوچھا کہ کیا مطیع اللہ جان ان کی حراست میں ہے تو انہوں نے کہا کہ ’انہیں (مطیع اللہ کو) اسلام آباد پولیس نے تو نہیں اٹھایا۔ اور پولیس کو کوئی ایسی چیز درخواست وغیرہ رپورٹ بھی نہیں ہوئی۔‘
’یعنی ان کے اہل خانہ کی جانب سے پولیس کو کوئی درخواست نہیں دی گئی؟‘ لیکن ترجمان نے کہا ’میں نے کہا اسلام آباد پولیس کو تاحال ایسا کچھ رپورٹ نہیں ہوا۔‘
صحافی مطیع اللہ جان کے ’اغوا‘ کے بعد پاکستان کے متعدد صحافیوں اور تنظیموں نے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری ایک بیان میں مطیع اللہ جان کے ’اغوا‘ کی مذمت کی ہے۔
سینیئر صحافی حامد میر نے ایکس پر بتایا ہے کہ مطیع اللہ جان کے ساتھ ’اغوا اور بعد میں چھوڑ دیے‘ جانے والے صحافی ثاقب بشیر جمعرات یعنی آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک درخواست جمع کروائیں گے۔
صحافی اجمل جامی نے لکھا: ’مطیع اللہ جان صاحب ہر دور میں چبھتے کیوں ہیں؟ کہاں ہیں مطیع اللہ؟ کیوں اٹھایا گیا؟ کہاں ہے حکومت اور ان کے ترجمان؟ بولتے کیوں نہیں؟ خدارا ! مطیع صاحب کو رہا کیا جائے۔ آپ صرف مقامی نہیں بین الاقوامی ذلالت بھی جان بوجھ کر اپنے نام کر رہے ہیں۔‘
اسلام آباد کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن (آئی سی آر اے) نے صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی مذمت کی ہے۔
ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ مطیع اللہ جان کے خلاف لگائے گئے سنگین الزامات کی فوری اور شفاف تحقیقات کی جائیں جن میں نشے میں گاڑی چلانا اور آئس سمگلنگ بھی شامل ہے۔
آئی سی آر اے کے صدر قمر منور نے واضح کیا کہ صحافیوں کو ان کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے درج ’بے بنیاد مقدمات‘ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر انصاف نہیں ملا تو ایسوسی ایشن مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرے گی۔
تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے بھی ان پر لگآئے ہوئے الزامات کو بےبنیاد قرار دیا ہے۔