چلو جی بھائی بھی دھر لیے گئے، وہی بھائی جن کی ابرو کے اشارے سے زندگی کے فیصلے ہو جایا کرتے، وہی بھائی جو ناراض ہوتے تو کروڑ کی آبادی والے شہر کو تالے لگ جاتے، ہاں ہاں وہی بھائی جو کراچی، مہاجر، اردو بولنے والوں اور ایم کیو ایم کی ایک ناقابل تردید پہچان تھے، جن کے بارے میں سوچنا بھی دشوار تھا کہ کوئی بھائی سے بھی تگڑا ہو سکتا ہے جو بھائی کو قابو کر لے، جی ہاں وہی بھائی دھر لیے گئے ہیں۔
آئے روز کی طرح ایک بار کراچی یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی جمعیت اور ایم کیو ایم کے سٹوڈنٹ ونگ اے پی ایم ایس او (آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے درمیان بلا کا رن پڑا، ہم پڑھاکو قسم کے لڑکے لڑکیاں بچتے بچاتے گھروں کو پہنچے۔ اگلے دن ہم کلاس فیلوز کے گروپ نے اپنے ایک دوست کو گھیر لیا، اصل نام نجانے کیا تھا مگر ہم تو میم مُنا کہتے تھے، خیر میم مُنا اے پی ایم ایس او کا ذمہ دار تھا، پہلے ہم جماعتی لڑکوں کی مار دھاڑ پر تبصرہ کرنے لگے، پھر اے پی ایم ایس او کی بات نکلی یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک جاپہنچی، دوستوں کے درمیان جیسی باتیں ہوتی ہیں بالکل ویسے ہی ہورہی تھیں، ہم ’بھائیوں‘ کا اجتماعی مذاق اڑا رہے تھے، میں نے بھی الطاف بھائی کی نقل اتارنا شروع کی، گستاخی حد سے بڑھنے لگی تو میم مُنے نے شدید غضبناک ہو کر کہا: ’اپنے باپ کے خلاف سب کچھ سن سکتا ہوں مگر الطاف بھائی کے خلاف ایک لفظ نہیں سنوں گا‘۔
اللہ جانے اب میم مُنا اپنے پیارے الطاف بھائی کو کن الفاظ میں یاد کرتا ہوگا، خیر سے مصطفیٰ کمال کی پارٹی جوائن کرلی ہے۔
میرا تعلق کراچی کی اس نسل سے ہے جس نے اپنے بچپن میں ایم کیو ایم کے خلاف کریک ڈاؤن دیکھا، بے نظیر بھٹو دور میں ماورائے عدالت قتل کے سینکڑوں واقعات کی سرخیاں اخبارات میں سلگتی دیکھیں۔ پھر ہم نے ایم کیو ایم کا عروج بھی دیکھا، ہم ایم کیو ایم کے ان فیملی فیسٹیولز میں بھی گئے جو اردو بولنے والوں کے اکثریتی محلوں میں منعقد ہوتے تھے، ہم نے اپنے آس پڑوس کے لوگوں کو گھریلو جھگڑوں کے حل کے لیے ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس جاتے بھی دیکھا، اور ہڑتال کرنے پر ایم کیو ایم کو گالیاں دیتے بھی سُنا، ہم 'بھائی' کا مذاق اڑاتے جاتے اور کراچی یونیورسٹی میں الطاف حسین کی سالگرہ کا کیک بھی مزے لے کر کھاتے۔
ہم کبھی فکری نشست کے موضوعات پر پھبتیاں کستے، کبھی محبت و الفت پر بھائی کی ایکسپرٹ رائے کو زیر بحث لاتے اور کبھی بھائی کے تازہ خطاب میں لمبی سانس کھینچتے ہوئے کہے گئے دلچسپ جملوں کے مزے لیتے۔ بس اتنا یاد ہے کہ بھائی ٹی وی پر ایک گھنٹہ خطاب کرتے، پھر جو پوچھو کہ موضوع کیا تھا کچھ سمجھ آیا؟ تو جواب ملتا ’گھنٹہ‘۔
’مبارک ہو ہڑتال کا چاند نظر آ گیا ہے‘ خصوصی اخباری ضمیمہ بیچنے والے ہاکر کی صدائیں، تڑ تڑ تڑ فائرنگ کی آوازیں، دھڑا دھڑ شٹر گرنےسے مچنے والی افراتفری، ایم کیو ایم کی ہڑتالیں، مشاعرے، مجالس، جلسے، موسیقی نائٹ، بھائی باجی کہنے والے کارکن یہ سب تو جیسے کراچی کی زندگی کا ایک حصہ تھا، بوری یا پرچی کی گند سے پرے، ایم کیو ایم کا کلچر دراصل اردو بولنے والوں کا سیاسی انداز تھا، یہ کلچر کراچی کے تانے بانے میں بُنا ہوا تھا، پھر یہ ہوا کہ سب سے پہلے الطاف حسین کا بت ٹوٹا، ایم کیو ایم کا خوف گیا، آخر کار ایم کیو ایم ہی کام سے گئی۔
اب الطاف حسین کراچی کے لیے اتنے ہی غیر اہم ہوگئے ہیں جتنا کہ کوئی بھی تارک وطن، اب سکاٹ لینڈ یارڈ والے الطاف حسین کو بری کریں یا عمر قید، کسی کو کیا پرواہ ! مگر پرواہ ہے تو اس کراچی کی ہے جس کی شکل سے لاوارثی ٹپکتی ہے، اردو بولنے والوں کی اکثریت کو پیپلز پارٹی پسند نہیں تو پیپلز پارٹی نے بھی سندھ کی شہری آبادی بالخصوص کراچی والوں کو ٹھینگا دکھا رکھا ہے۔ رہی بات تحریک انصاف کی تو عمران خان اور کراچی والوں کا تعلق کچے دھاگے کا رشتہ ہے ، یا ’کرانچی‘ والوں کی زبانی یوں کہہ لیں بس وقتی جگاڑہے۔
مجھے تو حیرت اس کراچی پر ہے کہ جس نے فن و ادب میں کیسے کیسے ہیرے پیدا کیے، معاشیات کے بہترین ماہر پیدا کیے، شاندار کارکردگی دکھانے والے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹرز پیدا کیے مگر اسی کراچی کی کوکھ الطاف حسین جیسے غیر متوازن شخص کے سوا کوئی سیاسی لیڈر ہی پیدا نہ کرسکی اور جو علی رضا عابدی جیسے کسی معقول شخص نے سیاست میں زورِ بازو آزمانے کی کوشش کی اس کا بازو مروڑ دیا گیا، عمران فاروق کے اڑان بھرنے سے پہلے ہی پر کاٹ دیئے گئے، آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی بری طرح فلاپ رہی، کراچی والوں نے مصطفیٰ کمال کے مگر مچھ کے آنسو بھی نہیں خریدے، فاروق ستار بیچارے ناراض ہی بہت ہوتے ہیں، وسیم اختر کو فنڈز تو ملتے نہیں کراچی کی کنگ شپ کا تاج کون دے، رہ گئے ایم کیو ایم پاکستان کے خالد مقبول صدیقی، تو وہ بھی نئے قائد تحریک بننے کے بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت پر ہی اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے نظم و ضبط کے لیے مشہور ایم کیو ایم کے تین تیرہ ہونے کو چلو نظر انداز کر بھی دیں مگر ایسی بھی کیا بدگمانی کہ ان سے کوئی ایک قائد منتخب نہ ہوسکا۔ نسل در نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ، اردو بولنے والوں کے اجتماعی شعور پر سوال ہے کہ جو لسانیت سے ہٹ کر کوئی ایک نمائندہ جمہوری جماعت نہ بناسکے۔
کہتے ہیں سیاست پیسوں کا کھیل ہے، کم از کم اتنا پیسہ تو کراچی کی میمن، گجراتی، کاٹھیا واڑی اور خوجہ شیعہ کمیونٹی کے پاس ہے کہ یہ سیاست کے میدان میں اپنی پارٹی اور اپنا لیڈر اتار سکیں مگر وہاں بھی خلا ہے۔
ایک وقت تھا کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی کا طوطی بولتا تھا اب ان میں بھی وہ پبلک اپیل نہیں رہی۔ پھر اے این پی کراچی میں بسنے والے پشتونوں کی نمائندگی کے لیے ابھری، ان کا دور بھی آیا اور چلا گیا، یہ جماعتیں جتنی بھی مقبول ہوئیں مگر ایم کیو ایم کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکیں۔
حالت اب یہ ہے کہ کراچی وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان پنچنگ بیگ بنا ہوا ہے، جس کا موقع لگا، ایک مُکا جڑ دیا، کراچی کے لیے نئے بجٹ میں جتنی رقم مختص ہوئی ہے اسے کون کیسے استعمال کریگا فی الحال واضح نہیں مگر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ بہت بگڑے کراچی کا بھلا نہیں ہونے والا۔
عروس البلاد کراچی سیاسی طور پر یتیم ہے، اتنے بڑے شہر میں اتنی ساری جماعتیں ہیں مگر کوئی ایک بھی ڈھنگ سے کراچی کی نمائندہ جماعت نہیں کہی جاسکتی۔ فی الحال کراچی میں ڈبلیو گیارہ کی بس چل رہی ہے اور کچھ سیاسی جگاڑ۔