مرسی 2012 میں مصر کے صدر منتخب ہوئے لیکن ایک سال بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
مصر کی ’الاخوان المسلمون‘ کے سینیئر رہنما محمد مرسی 2011 کے انقلاب سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے بعد مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ سات سال بعد وہ ایک ساؤنڈ پروف پنجرے میں بات کرنے کی اجازت مانگتے ہوئے جان سے گزر گئے۔ 2012 میں مرسی اخوان المسلمون کی پہلی ترجیح نہیں تھے۔
تنظیم کے سیاسی رہنما اور معاشی مرکز تصور کیے جانے والے خیرات الشاطر جو اس جماعت کے حکومت میں آنے کی وجہ بھی سمجھے جاتے ہیں صرف اس لیے نااہل قرار دے دیے گئے کہ وہ ایک سال پہلے ہی جیل سے رہا ہوئے تھے۔ جبکہ دوسری جانب مرسی جو انجنیئیر اور یونیورسٹی پروفیسر تھے اپنی پست قامت، غیر متاثر کن شناخت اور کرشماتی شخصیت سے محرومی کا چلتا پھرتا ثبوت تھے۔ وہ عربی میں ’سٹپنی‘ کے طنزیہ نام سے جانے جاتے تھے۔
عرب بہار کی شروعات میں لاکھوں لوگوں کے مظاہروں کو دیکھ کر مصر کی اسٹیبلشمنٹ حیران رہ گئی۔ اخوان المسلمون پہلے پہل غیر جانبدار رہتے ہوئے اس احتجاج سے دور رہی۔ ایک موقعے پر حالات کو کسی یقینی صورتحال کی جانب جاتے دیکھ کر وہ اس 18 روزہ احتجاج کا حصہ بن گئی جس نے حسنی مبارک کے طویل اقتدار کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
لیکن حسنی مبارک کے استعفے کے اعلان کے بعد اخوان کی جانب سے اپنے حامیوں کو تحریر سکوائر سے پلٹ جانے کو کہا گیا جبکہ اسی دوران سیکیولر مظاہرین کی جانب سے احتجاج جاری رہا۔ یہ بات اخوان المسلمون کے حامی مذہبی طبقے اور سیکیولر مظاہرین کے درمیان مزید بد گمانی کا باعث بنی۔ کچھ نے تو اخوان المسلمون پر فوج سے پس پردہ معاملات طے کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ اسی دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان مصر کی گلیوں میں خونی جھڑپیں بھی جاری تھیں۔ تاہم پوری قوم کی نظریں انتخابات کے نتائج پر لگی تھیں جن کا اعلان جون کے اوائل میں ہونا تھا اور جس میں مرسی کو متوقع صدر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ وہ حسنی مبارک کے آخری وزیر اعظم احمد شفیق کے مقابل الیکشن لڑ رہے تھے۔ جن کو سابقہ حکومت کی ’نا پسندیدہ یادگار‘ کہا جا رہا تھا۔
کئی مصریوں کے لیے حسنی مبارک کے مقابلے میں کچھ بھی بہتر تھا۔ حتیٰ کے کچھ سیکولر عناصر نے بھی مرسی کی حمایت کی تھی لیکن وہ اتنے مقبول یا پر اثر صدر نہیں ثابت ہو سکے۔
ان کی ایک سالہ مدت صدارت کے دوران مصر معاشی صورتحال کی بحالی کی جانب نہیں جا سکا۔ بجلی کی تعطلی معمول کی بات تھی۔ سیاسی مسائل کی بھی بہتات تھی۔ عہدہ صدارت سنبھالتے ہی ان کا پہلا قدم مصری آئین میں خود کو عدلیہ سے بالا قرار دینے اور اپنے فیصلوں اور قوانین کو چیلینج کرنے پر پابندی عائد کرنا تھا۔ اس وقت کے اپوزیشن رہنما محمد البرادی نے ان کو ’نیا فرعون مصر‘ قرار دیا تھا۔
انہوں نے افواج کی سپریم کونسل کے غیر معروف رکن عبدالفتح السیسی کو اپنا وزیر دفاع مقرر کیا۔ بعد میں یہی السیسی ان کی حکومت ختم کر کے صدر کا عہدہ سنبھال بیٹھے۔ اس وقت جنرل السیسی کی تعیناتی کو اخوان المسلمون کی جانب سے مصری فوج کی سیاسی طاقت کو گرفت میں لینے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ مرسی کے زیر سرپرستی آئین تیار کرنے والی اسمبلی میں قدامت پسند مذہبی طبقے بشمول سلفی گروہوں کی اکثریت سے اقلیتی مسیحی آبادی اور سیکولر طبقہ تشویش کا شکار ہو گیا۔
اس دوران ہونے والے بحث کسی نتیجے پر تو نہ پہنچ سکی لیکن اس نے لوگوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا۔ خاص طور پر شادی کی عمر کو کم مقرر کرنے جیسی باتوں کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی بڑھتی رہی۔ نیا آئین 64 فیصد ووٹوں کے ساتھ دسمبر 2013 میں منظور کر لیا لیکن حزب اختلاف کی جانب سے دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقعے پر ایک غیر منظم گروہ جو خود کو ’تمارود‘ یا بغاوت کہلاتا تھا، نے مظاہرے شروع کر دیے۔ اس کے اراکین کی جانب سے مرسی کو عہدہ صدارت سے ہٹانے کے لیے دو کروڑ دستخط حاصل کرنے کا دعوی کیا گیا۔ قاہرہ کی گلیوں میں مظاہرین کو اپنے مطالبات کی فوٹو کاپیوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا جو لوگوں میں یہ کاپیاں تقسیم کر رہے تھے تاکہ ان پر دستخط لیے جا سکیں۔ یہ اقدامات اخوان المسلمون کے خلاف عوامی جذبات کی عکاسی کرتے تھے لیکن اس کو صرف سویلین مظاہرین کااحتجاج سمجھا جانا کافی عجیب محسوس ہو رہا تھا۔
30 جون 2013 کو ہونے والے مظاہرے بہت بڑے تھے۔ تحریر سکوائر میں ہزاروں لوگوں کا اجتماع موجود تھا۔ لیکن انہی احتجاج کرنے والوں کے درمیان سیکیورٹی اہلکار موجود تھے جو فٹبال ریفریز کی طرح سرخ کارڈ لہراتے ’چلے جاؤ، چلے جاؤ‘ چلا رہے تھے۔ ایسا یقیناً کسی کی اجازت سے ہی کیا جا رہا تھا۔
مرسی ڈٹے ہوئے تھے۔ فوج کی جانب سے 48 گھنٹوں میں مستعفی ہونے کی مہلت کے دوران کی جانے والی ہنگامی تقریر میں وہ اس بات پر بضد تھے کہ وہ مصر کے قانونی حکمران ہیں۔ تقریر میں ان کی جانب سے یہ بات درجنوں بار کہی گئی۔
3 جولائی کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جس کے بعد وہ منظر عام سے غائب کر دیے گئے اور پھر نومبر میں عدالت میں پیشی کے دوران وہ دوبارہ سامنے آئے۔ ان کو بیرونی دنیا سے رابطوں سے دور کسی سیکیورٹی کی عمارت میں غالبا غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا۔ ان کی عدالت میں پیشی بھی بد نظمی کا شکار رہی۔ مرسی چلاتے رہے کہ ’یہ عدالت نہیں فوجی بغاوت ہے‘ لیکن ان کے خون کے پیاسے صحافیوں اور وکیلوں کے شور میں یہ آواز دب کر رہ گئی۔ عدالت کی صورتحال متشدد ہو چکی تھی اور مرسی کے مخالف وکلا چلا رہے تھے ’مرسی کو پھانسی ہو گی، انشااللہ ، مرسی کو پھانسی ہو گی۔‘
مرسی نے اس کے بعد لمبے عرصے تک کئی مقدمات کا سامنا کیا۔ ان پر پہلا مقدمہ 2012 میں صدارتی محل کے باہر احتجاج کرنے والوں کے قتل کا حکم دینے کا تھا۔ پھر ان پر 2011 میں جیل توڑنے کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ جس کے لیے انہیں 2015 میں موت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر جاسوسی کا مقدمہ بھی چلایا جا رہا تھا اسی مقدمے کی سماعت کے دوران ہی عدالت میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔
ان کی ہلاکت سے قبل برطانوی وکیلوں اور ارکانِ پارلیمان پر مشتمل ایک گروپ نے ان کے خاندان کی جانب سے فراہم کی جانے والی ایک غیر جانبدرانہ رپورٹ کی بنیاد پر اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ جیل میں غیر مناسب سلوک کے باعث ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
وہ ذیابیطس، بلڈ پریشر اور جگر کی بیماری میں مبتلا تھے۔ وہ طویل عرصے تک قید تنہائی کا بھی شکار رہے۔ بعض موقعوں پر انہیں خوراک اور علاج کی سہولت سے بھی محروم رکھا جاتا رہا۔ اپنی موت کے دن تک وہ اس موقف پر قائم تھے کہ وہ مصر کے قانونی صدر تھے۔
ان کی وفات پر ترکی کے صدر اردوغان کی جانب سے انہیں ’شہید‘ قرار دیا گیا جبکہ دنیا بھر میں اسلام پسندوں کی جانب سے ان کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اسلام پسند تنظیم جماعت اسلامی نے بھی اپنے مرکز منصورہ لاہور میں محمد مرسی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی اقتدا میں اسلام آباد میں بھی ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔