بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چند ماہ قبل مبینہ دہشت گردی‘ سے متعلق مقدمات کی تفتیش اور پراسیکیوشن کے لیے تشکیل دی جانے والی سٹیٹ انویسٹیگیشن ایجنسی (ایس آئی اے) نے ایک پی ایچ ڈی سکالر کو 11 سال پہلے ایک ’انتہائی اشتعال انگیز اور بغاوت پر مبنی‘ مضمون لکھنے پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کر لیا۔
گرفتار عبدالااعلیٰ فاضلی نے، جو فی الوقت کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ فارماسیوٹیکل سائنسز میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں، چھ نومبر، 2011 کو ایک مقامی نیوز پورٹل ’دا کشمیر والا‘ میں ایک مضمون بعنوان ’غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی‘ لکھا تھا۔
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایس آئی اے کی ایک ٹیم نے اتوار کو سری نگر کے مضافاتی علاقے ہمہامہ میں عبدالااعلیٰ فاضلی کے گھر پر چھاپہ مار کر تلاشیاں لیں اور ان کی گرفتاری عمل میں لائی۔
انہوں نے بتایا کہ اسی دن ایس آئی اے کی دوسری ٹیموں نے ’دا کشمیر والا‘ کے دفتر اور اس کے محبوس بانی و ایڈیٹر ان چیف فہد شاہ کے گھر پر چھاپہ مار کر تلاشیاں لیں۔
عبدالااعلیٰ فاضلی، جن کی عمر 39 برس بتائی جا رہی ہے، کی عید الفطر کے موقعے پر شادی ہونے والی تھی۔
پولیس کا بیان
جموں و کشمیر پولیس نے فاضلی کی ایس آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری پر ایک تفصیلی بیان جاری کیا ہے جس کی سرخی کچھ یوں ہے: ’جموں و کشمیر کی سٹیٹ انویسٹیگیشن ایجنسی کا دہشت گردی اور ملک دشمن نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاؤن۔‘
بیان میں کہا گیا کہ سٹیٹ انویسٹیگیشن ایجنسی نے، جسے یونین ٹریٹری آف جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی‘ سے متعلق مقدمات کی تفتیش اور پراسیکیوشن کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اتوار یعنی 17 اپریل کو سری نگر میں کئی جگہوں پر چھاپے مارے۔
’یہ چھاپے اشتعال انگیز مضمون کے مصنف عبدالااعلیٰ فاضلی اور ماہانہ ڈیجیٹل میگزین ’دا کشمیر والا‘ کے ایڈیٹر اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے خلاف پولیس تھانہ جے سی آئی (ایس آئی اے) جموں میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے کے سلسلے میں مارے گئے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ماہانہ ڈیجیٹل میگزین ’دا کشمیر والا‘ میں شائع ہونے والا عبدالااعلیٰ فاضلی کا مضمون بعنوان ’غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی‘ جہاں ایک طرف انتہائی اشتعال انگیز اور باغیانہ ہے وہیں ایسا نظر آتا ہے کہ یہ جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلانے کے مقصد سے لکھا گیا ہے۔
’دہشت گردی کو گلوریفائی کر کے نوجوانوں کو تشدد کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب دینا بھی اس مضمون کا مقصد ہے۔ اس مضمون کے ذریعے جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے کا بھی کام کیا گیا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ عبدالااعلیٰ فاضلی نے اپنے مضمون میں ہدایاتی زبان کا استعمال کیا اور علیحدگی پسند عناصر کو ’دہشت گردانہ سرگرمیاں‘ انجام دینے کی ترغیب دی۔
فاضلی نے کیا لکھا تھا؟
جموں و کشمیر پولیس کے بیان میں یہ نہیں لکھا کہ عبدالااعلیٰ فاضلی کا یہ مضمون کب شائع ہوا لیکن اس کو ’اشتعال انگیز‘ اور ’باغیانہ‘ ثابت کرنے کے لیے اس کے کچھ اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جو یوں ہیں:
’آئیں عید الاضحیٰ کے موقعے پر ہم سب اپنے شہدا کے خون اور ماؤں بہنوں کے آنسوؤں کے نام پر عہد کریں کہ ہم ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے نیز ہم آزادی کی جدوجہد کو کبھی نہیں روکیں گے۔
’ایک مطلع عزم نوجوان نسل میں منتقل ہو گیا ہے اور وہ آزادی کے لیے زیادہ تخلیقی، ہمت اور موثر طریقے سے جدوجہد جاری رکھنے میں پُراعتماد نظر آتے ہیں۔
’ہم بھلے ہی بھارت کو بھگانے میں ابھی تک کامیاب نہ ہوئے ہوں لیکن ہم یقیناً کشمیر پر ان کی گرفت کو ہلانے اور ان کے اداروں کے اندر لہریں پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
’میرے پیارے دوستو، کامیابی کوئی واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک عمل (پروسس) ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر ہمیں چلنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی منزل یعنی آزادی تک پہنچیں۔
’جدوجہد آزادی کی کامیابی کے بارے میں مضطرب اور مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا مکمل اور پختہ عقیدہ ہے کہ ہم آخر کار آزادی حاصل کر ہی لیں گے۔ انشا اللہ۔
’بھارتی حکومت کی تمام سرمایہ کاری ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ الحمد اللہ۔
’یہ ہماری بہادرانہ جدوجہد، لچک اور قربانیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ہم نے بھارت کی سیاسی چالوں اور ظلم و ستم کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ یہ اطمینان کا ایک ذریعہ ہے۔ آئیں امید کے ساتھ آزادی کے مارچ کو آگے بڑھانے کے لیے حوصلہ افزائی محسوس کریں۔‘
لفظ ’آزادی‘ کا بار بار ذکر
پولیس نے بیان میں کہا ہے کہ مضمون میں لفظ ’آزادی‘ کا بار بار ذکر ملتا ہے اور اس میں ’دہشت گرد تنظیموں کے بیانیہ‘ کی تشہیر سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مضمون محض پروپیگنڈا نہیں بلکہ یہ پاکستان آئی ایس آئی اور اس کے سپانسر شدہ دہشت گرد علیحدگی پسند نیٹ ورکس کا وژن ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ عبدالااعلیٰ فاضلی نے کشمیر یونیورسٹی سے بی فارم، ایم فارم (فارماسیوٹکس) کیا ہے اور فی الوقت اسی یونیورسٹی کے شعبہ فارماسیوٹیکل سائنسز میں بطور پی ایچ ڈی سکالر انرول ہیں۔
’بھارتی حکومت نے انہیں یو جی سی مانف یا مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے تحت مارچ 2021 تک پانچ سال کے لیے ماہانہ 30 ہزار روپے ادا کیے ہیں تاکہ وہ اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر سکیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ شواہد حاصل کرنے کے لیے ایس آئی اے کی ٹیموں نے راج باغ میں ’دا کشمیر والا‘ کے دفتر، صورہ میں اس کے ایڈیٹر فہد شاہ اور ہمہامہ چوک میں عبدالااعلیٰ فاضلی کے گھر پر چھاپے مارے۔
’تلاشی لینے والی ٹیموں نے مجرمانہ چیزیں بشمول کمپیوٹروں میں محفوظ مواد، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیجیٹل آلات ضبط کر لی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واضح رہے کہ ’دا کشمیر والا‘ کے ایڈیٹر ان چیف رواں سال 16 مارچ سے متنازع پبلک سیفٹی ایکٹ یا پی ایس اے کے تحت کپوارہ جیل میں مقید ہیں۔
’دا کشمیر والا ایڈیٹوریل بورڈ‘ نے ایک بیان میں کہا کہ فہد شاہ کو رواں برس فروری سے چار مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے۔
’شاہ کی بار بار گرفتاری اور چھاپہ مار کارروائیوں سے ان کے خاندان اور کشمیر والا عملہ پر کافی برا اثر پڑا ہے۔ ہمارا صحافتی کام متاثر ہوا ہے جسے ہم نے انتہائی مشکل حالات میں بھی جاری رکھا تھا۔‘
دریں اثنا کشمیر یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عبدالااعلیٰ فاضلی کو اس سے پہلے 2020 میں کشمیر یونیورسٹی میں غیر قانونی سرگرمیوں اور ملک کے خلاف نعرہ بازی میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
’جس مقدمے میں فاضلی کو گرفتار کیا گیا تھا وہ 2018 کا تھا اور انہیں نگین پولیس تھانہ میں قریب ایک ماہ تک قید رکھنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔‘
مذکورہ طالب علم کا مزید کہنا تھا: ’ایک 11 سال پرانے مضمون پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کرنا سمجھ سے باہر ہے۔
’فاضلی کی سوچ اب بالکل بدل چکی ہے۔ وہ معمول کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا نکاح ہو چکا ہے اور سننے میں آیا کہ عیدالفطر کے موقعے پر وہ شادی کرنے والے تھے۔‘
یہ رپورٹ فائل کیے جانے تک کشمیر کی کسی بھی بھارت نواز سیاسی جماعت یا صحافتی تنظیم کا عبدالااعلیٰ فاضلی کی گرفتاری اور ’دا کشمیر والا‘ کے دفتر و ایڈیٹر ان چیف کے گھر پر چھاپہ ماری کے خلاف کوئی بیان نہیں آیا تھا۔