یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
یہ 2014 کا واقعہ ہے، جب معذوروں کے عالمی دن کے موقعے پہ لاہور کے ڈیوس روڈ پہ نابینا افراد نے جلوس نکالا۔ شرکا اپنے چند مطالبات حکومت تک پہنچانے کے لیے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ جانا چاہتے تھے۔
نابینا یہ سمجھے تھے کہ آنکھوں پہ لگا سیاہ چشمہ اور ان کی سفید چھڑی دیکھ کر انتظامیہ اور پولیس تھوڑی شرم کھا لیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ نابینا افراد پہ لاہور پولیس نے لاٹھی چارج کیا، ان کی سفید چھڑیاں چھین کر پھینکی گئیں، انہیں گردنوں سے دبوچا گیا۔ نابینا بیچارے ٹٹول ٹٹول کر ایک دوسرے کے سہارے، لاٹھیاں کھاتے، یہاں وہاں گرتے پڑتے، نجانے کیا سوچ رہے ہوں گے، مجھ سمیت ہم آنکھ والوں کے لیے اس کا تصور ممکن نہیں۔
اپنے نیوز روم میں لگی درجن ٹی وی سکرینوں پہ تشدد کا نشانہ بنتے ان معذور، نابینا افراد کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہ ملک معذوروں کے لیے نہیں بنا۔ یہاں وہی جی سکتا ہے جو فِٹ ہو۔
ان دنوں گھر میں ایک عزیز شدید علالت سے نبرد آزما ہیں۔ دوا غذا اور دیکھ بھال سمیت دنیا کی سہولتیں میسر ہیں۔ اس دوران پاکستان میں صحت کے شعبے کو خصوصی عدسے سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور دیکھ کر یہ کہنے پہ مجبور ہوں کہ سرزمینِ پاکستان مریضوں کے لیے بھی تنگ ہے۔ بیمار اشرافیہ یونہی علاج کے لیے بیرون ملک نہیں دوڑتی۔
پاکستان میں آپ اس وقت تک خوش نہ سہی مگر بہرحال زندہ رہ سکتے ہیں جب تک کہ آپ صحت مند ہیں، جیسے ہی بیماری کا حملہ ہو آپ رہتے نہیں سسکتے ہیں، گھڑیاں گنتے ہیں۔ جیب میں پیسے ہوں تو پھر کچھ سہولت خریدنے کا امکان ہے لیکن اگر بیمار بندہ غریب بھی ہو تو پھر موت ہی واحد علاج لگتی ہے۔
ہسپتال کی عمارتیں بڑی بڑی ہیں مگر ان میں موجود چھوٹی چھوٹی کمی بیشی مجموعی طور پر بیماروں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ بیمار تو بستر پہ پڑا ہے مگر زبوں حال نظامِ صحت بیمار کے گھر والوں کو بھی بستر پہ ڈال سکتا ہے۔
کراچی کی ہی مثال لے لیجیے۔ کسی بڑے سرکاری ہسپتال کی نہیں پاکستان کے ایک فوجی ادارے کے ہسپتال کا ذکر ہے۔ ایمرجنسی وارڈ میں بستروں کی اتنی کمی ہے کہ بعض اوقات ایک بستر پہ دو مریضوں کو لٹایا جاتا ہے۔ مائنر سرجری ایمرجنسی سے منسلک ہے یہاں بھی جگہ، عملہ اور وسائل کی کمی کے باعث مریض سٹریچر یا وہیل چیئر پہ کراہتے ہوئےاپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔
یہ منظر بھی میں نے کسی گاؤں میں نہیں کراچی کے ایک بڑے ہسپتال میں دیکھا کہ موبائل آکسیجن سپورٹ کے لیے گھنٹہ آدھا گھنٹہ انتظار بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
میں نے ایمرجنسی وارڈ میں مسلسل مصروف نوجوان ڈاکٹر سے کہا کہ ’کراچی میں کم از کم ایسے 100 ہسپتال مزید بنیں تب کہیں جاکر یہ رش کم ہو گا۔‘
کہنے لگے کہ ’ان سو ہسپتالوں میں بھی ایسے ہی لائنیں لگی ہوں گی کیوں کہ ہمارے یہاں ایمرجنسی ریلیف، آؤٹ پیشنٹ اور مزمن امراض کےعلاج معالجے سب کو ایک ہی خانے میں رکھا جاتا ہے۔ پنجاب کی ریسکیو 1122 سروس کی طرز پہ سہولت ملک بھر میں ہو تو ہسپتالوں سے بوجھ کم ہوسکے۔‘
سرکاری شعبے میں ایک ڈاکٹر درجنوں کے حساب سے مریض بھگتاتا ہے، پرائیوٹ والے بھی وہی کام کر رہے ہیں بس فرق اتنا ہے کہ شفا ملے نہ ملے ہر کچھ وقفے بعد خوشبودار فینائل سے فرش کی صفائی ہوتی ہے اور لاکھوں کے حساب سے جیب ڈھیلی ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری اور نجی ہسپتال آبادی کے حساب سے کتنے ہوں، کیسے ہوں، کہاں ہوں، ان میں کیا کیا سہولیات ہوں، ان کی جانچ پڑتال کیسے ہوں، ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف پر چیک کیسے رکھا جائے، ہسپتال کی کمائی کا آڈٹ کیسے ہو، یہ سب تحقیق طلب موضوع ہے، یقیناً وزارت صحت کا میکینزم ہو گا لیکن یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ میکینزم کام نہیں کررہا۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں جہاں گھروں میں 24 گھنٹے خیال رکھنے والے کم ہیں، اگر ہیں بھی تو مریض کی دیکھ بھال کے لیے تربیت یافتہ نہیں۔ ایسی صورت میں ہوم نرسنگ کا شعبہ کام آتا ہے۔ پاکستان کے ہر دوسرے شعبے کی طرح ہوم نرسنگ کیئر بھی ایک بزنس وینچر ہے جس میں کمائی کا سکوپ ہی سکوپ ہے۔
تقریباً تین کروڑ کی آبادی والے کراچی میں تین گھنٹے میں فون کر کے ہوم نرسنگ سروسز کی پوری ڈائریکٹری کھنگال لی، گنتی کی تین یا چار رجسٹرڈ، ہسپتال سے منسلک باقاعدہ سروسز موجود ہیں۔ باقی ہسپتالوں کے اکثر مرد نرس فری لانس یہ کام کرتے ہیں۔ ان پہ بھی نگرانی کے لیے کوئی سرکاری ریگولیٹر فعال نہیں۔ بعض غیرتربیت یافتہ نرس ہیں لیکن مریضوں کے اہل خانہ بہرحال انہی سے کام چلا رہے ہیں۔
بیماری سے نمٹنے کے لیے مریض اور ان کے اہل خانہ کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہوتا ہے جسے ایمبولینس کہتے ہیں۔ کم از کم کراچی میں ایمبولینس کاایک سینٹرلائزڈ نظام نہیں، باقی چھوٹے شہروں اور گاوں دیہاتوں کا اندازہ لگا لیں۔
درجنوں مددگار فلاحی اداروں نے اپنی اپنی ایمبولینس سروس چلا رکھی ہے۔ ایمبولینس کی اکثریت مریض کو ہسپتال پہنچانے سے زیادہ کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ان ایمبولینس کا عملہ صرف ایک ڈرائیور ہوتا ہے جو ایمرجنسی ڈرائیورنگ تو جانتا ہے مگر ایمرجنسی میڈیکل امداد سے ناواقف ہوتا ہے۔ مریض کے پاس تو کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا، رہ گئےان کے لواحقین تو وہ بھی ’نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر‘ سوچ کر ایسی ایمبولینس ملنے پہ مطمئن ہو جاتے ہیں۔
چھوٹے دیہاتوں، بڑے شہروں کی غریب آبادیوں، پرانی گلیوں کی جانب دیکھیں، یہاں ایمبولینس کا جانا ناممکن ہوتا ہے، اہل علاقہ کندھوں پہ رکھ کر مریض کو مرکزی شاہراہ تک لاتے ہیں۔
کراچی کی نئی ہاوسنگ سوسائٹیوں اور بلند اپارٹمنٹس والے بھی پسماندہ گاؤں والوں سے کم مشکل میں نہیں۔ اونچے فلیٹ جن میں سیڑھیاں ہیں وہاں سے مریض نیچے اتارنا محال، جن میں لفٹ ہے وہ اتنی چھوٹی کہ سٹریچر لے جانا ناممکن۔ کہ نیچے آتے آتے مریض ہمیشہ کے لیے اوپر ہی چلا جائے۔
لگتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز اور اربن، سٹی، ویلج یا پھر ٹاون پلاننر یہ سوچتے ہی نہیں کہ کبھی ہم بوڑھے بھی ہوں گے، کبھی ہم میں سے بعض بیمار پڑ سکتے ہیں، کبھی ہمیں ایمرجنسی درپیش ہوسکتی ہے، یا ہم سے کچھ کو معذوری بھی ہوسکتی ہے۔
جوانی میں تو سب ہرا ہرا لگتا ہے لیکن جب والدین اور عزیز بوڑھے، کمزور یا بیمار ہوتے ہیں تب یہ کُھلتا ہے کہ سیاست، معیشت، قومی حمیت، ریاستی وقار اور غیرت وغیرہ وغیرہ سب بے معنی ہے اگر ایک ملک کے باسیوں کو جینے اور اپنی جان بچانے کی بنیادی سہولت میسر نہیں۔