جنوبی صوبہ سندھ میں خریف فصلوں کی کاشت کے آغاز سے ہی دریائے سندھ میں پانی کی شدید قلت پر صوبہ سراپا احتجاج ہے۔
سوشل میڈیا صارفین پانی کی قلت اور ’سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہ ملنے‘ کے خلاف آن لائن احتجاج کرنے کے ساتھ کئی دنوں سے ٹوئٹر پر #SindhNeedsWater نام کا ہیش ٹیگ چلاکر احتجاج کررہے ہیں۔
سندھ کے صوبائی وزرا بھی پانی کی کمی پر متعدد بیانات دے چکے ہیں۔ جب کہ ہفتے کے روز سکھر بیراج پر سیکرٹری آبپاشی، چیف انجینئر سکھر بیراج کے ساتھ وفاقی وزیر اور صوبائی وزیر آبپاشی کے ساتھ اجلاس کے بعد جاری اپنے بیان میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ 1991 کے پانی کے معاہدے کی روشنی میں سندھ کو تھری ٹئیر فارمولا کے تحت کم پانی مل رہا ہے۔ سندھ کو معاہدے کے مطابق پانی دیا جائے۔
پانی قلت پر آن لائن احتجاج
پانی کی قلت پر سوشل میڈیا صارفین ٹوئٹر پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہے ہیں۔ معروف سیاستدان اور قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’سندھ میں پانی کی 72 فیصد کمی ہے۔ ہمیں ہمارا حصہ دیا جائے، پانی کی قلت ہمارے روزگار، زراعت اور اقتصادیات کو تباہ کر رہا ہے۔ ارسا 1991 معاہدے کے تحت پانی تقسیم کی خلاف ورزی کررہا ہے۔‘
Sindh is facing 72% shortage of water. Give us our due share, scarcity of water is damaging our livelihood, agriculture & economy. #IRSA is violating the water proportionmnt accord of 1991.@MuradAliShahPPP@S_KhursheedShah@MaryamNSharif#QATPak#AyazLatifPalijo#SindhNeedsWater pic.twitter.com/si6eGAsrQn
— Ayaz Latif Palijo (@AyazLatifPalijo) May 7, 2022
معروف سیاستدان اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے سندھ نیڈز واٹر ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹ کی
’سندھ لوئر رپریئن یا دریا پر آخری خطہ ہونے کے ساتھ دریا کے بہاؤ میں کمی اور بڑھتے ہوئے سمندر کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کو سندھ کی پانی کی ضروریات کا احساس ہونا چاہیے۔ سندھ میں پانی کی قلت پر احتجاج کا کیوں انتظار کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد پانی سپلائی کیا جائے۔ ‘
The federal government must show more sensitivity to the water needs of Sindh, a lower riparian caught between dwindling water flow in Indus and the expanding ocean. Why should it wait for the protest in Sindh against the water shortage for increasing d supply?#SindhNeedsWater
— Afrasiab Khattak (@a_siab) May 8, 2022
’صوبائی منافرت پھیلائی جارہی ہے‘
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پانی چوری کی تمام رپورٹس واضح کرتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے وڈیرے پانی چوری میں ملوث ہیں۔ ایک طرف سندھ کا پانی غریب ہاری کو نہیں پہنچ رہا، دوسری طرف پنجاب کو مورد الزام ٹھہرا کروزرا صوبائی منافرت کی سیاست کرتے ہیں، پنجاب کا کسان اور سندھ کا ہاری دونوں ہی زرداری مافیا سے تنگ ہیں۔
سندہ میں پانی چوری کی تمام رپورٹس واضع کرتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے وڈیرے پانی چوری میں ملوث ہیں ایک طرف سندہ کا پانی غریب ہاری کو نہیں پہنچ رہا دوسری طرف پنجاب کو موردالزام ٹھہرا کروزراء صوبائ منافرت کی سیاست کرتے ہیں،پنجاب کا کسان اور سندہ کا ہاری دونوں ہی زرداری مافیا سے تنگ ہیں
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) May 8, 2022
فواد چودھری کے الزام پر ردعمل دیتے ہوئے سندھ کے صوبائی وزیربلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کہا سندھ پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتا ہے، پی ٹی آئی کے دور میں کبھی بھی پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوئی۔ ’سندھ کسی صورت پنجاب کا پانی نہیں چاہتا بلکہ اپنا جائز حق مانگتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں کبھی بھی پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوئی اور اگر ہم پانی کی بات کرتے تھے تو ہمیں صوبائیت کا طعنہ دیاجاتا ۔آج خود پی ٹی آئی پانی پر پنجاب یعنی صوبائیت کی سیاست کررہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آج سندھ کو 40 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں انڈس ریور اتھارٹی سسٹم (ارسا) کو یرغمال بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کسی صوبے کا پانی نہیں چاہتا،سندھ صرف اپنے حصے کا پانی چاہتا ہے۔ سندھ چاہتا ہے کہ اگر سسٹم میں پانی کی کمی ہے تو جو پانی موجود ہے اسے منصفانہ طورپر تقسیم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت تمام صوبوں سے مل کرزرعی ترقی پر کام کررہی ہے۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن گندم، دالیں اور چینی دیگر ممالک سے درآمد کر رہے ہیں جو کہ افسوسناک ہے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم سے زراعت ترقی کرے گا اور ہاری خوشحال ہوگا۔
صورتحال میں جلد بہتری آئے گی: ارسا
انڈس ریور اتھارٹی سسٹم (ارسا) کے مطابق ملک میں جاری پانی کی شدید قلت کی صورتحال میں جلد ہی بہتری آئے گی۔ ارسا کے ترجمان خالد ادریس رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت سندھ اور پنجاب کو 20، 20 فیصد پانی کی کمی ہے۔ ان کے مطابق ’سکردو اور دیگر جگہوں پر جہاں گلیشرز موجود ہیں، وہاں درجہ حرارت نہ بڑھنے کے باعث ملک میں پانی کمی ہوئی، مگر اب سکردو پر درجہ حرارت بہتر ہورہا ہے، جس سے امید ہے کہ جلد ہی پانی کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔‘
خالد ادریس رانا کے مطابق جمعے کو سکردو میں درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈ، ہفتے کو 25 اور اتوار کو 27 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ واضح رہے کہ گلیشئیر 25 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرات پر پگھلنا شروع کرتے ہیں۔
’پانی تقسیم کے لیے ارسا اپنی مرضی کے فارمولے بنانے کا اہل نہیں‘
سندھ کے صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو نے کہا کہ تھری ٹیئر فارمولہ کے باعث سندھ کو اپنے حصے سے کم پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ 1991 کے پانی معاہدہ کے تحت گزشتہ ماہ اپریل کے مہینے میں خریف سیزن کے لیے 2.40 ایم اے ایف پانی مختص تھا، مگر سندھ کو صرف 1.38 ایم اے ایف پانی فراہم کیا گیا۔
دوسری جانب پنجاب کے حصے 4.11 کے مقابلے میں قلت کے باجود پنجاب کو 2.71 ایم اے ایف پانی دیا گیا۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جام خان شورو نے بتایا ’سندھ کو اپنے حصے سے کم پانی دینے پر صوبے میں پانی کی شدید قلت کے باعث بحران پیدا ہوگیا ہے۔ سندھ کو فوری طور پر پانی دے کر احساس محرومی ختم کی جائے۔‘
سندھ کی جانب سے ارسا پر لگائے گئے الزامات کے جواب میں ارسا ترجمان خالد ادریس رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پانی کی تقسیم 1991 معاہدے کے مختلف پیراز کے مطابق کی گئی ہے۔
ان کے مطابق: ’پانی کی تقسیم کے لیے 1991 پانی معاہدے میں کوئی ایک فارمولا نہیں ہے۔ ارسا دریائی پانی کو تمام وفاقی اکایوں میں تقسیم کرنے کے لیے پانی کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے 1991 کے پانی معاہدے کے پیرا 14 بی، دو اور چار کو استعمال کرتی ہے۔‘
’مگر سندھ کو اعتراض ہے کہ پانی کی تقسیم صرف معاہدے کے پیرا دو کے تحت کی جائے۔ سندھ کی جانب سے تقسیم پر کیے گئے اعتراضات کا کیس مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں 2018 سے گیا ہے، جب فیصلہ آئے تو پھر دیکھیں گے۔‘
واضح رہے کہ پانی معاہدہ 1991 کے پیرا دو میں ہر صوبے کا حصہ بتایا گیا۔ جب کہ پیرا چار میں سسٹم میں موجود پانی سے زائد پانی سیلاب کی صورت میں آجائے تو کس کو کتنا حصہ ملے گا، کے متعلق بتایا گیا ہے۔ جب کہ پیرا 14 بی میں کہا گیا ہے کہ سسٹم میں 1977 سے 1982 والے تاریخی حصص کے بنیاد پر مستقبل میں تقسیم کے لیے گائیڈ لائن بنائی جائے گی۔ جب کہ ٹین ڈیلیز کو سرپلس اور قلت کے مطابق حسب شرح ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
اس پر ردعمل میں جام خان شورو نے کہا کہ سندھ اگر پیرا دو کے تحت پانی کی تقسیم کا مطالبہ کرتی ہے تو کیا ناجائز ہے؟ یہ پیرا معاہدے کا حصہ ہے۔ ’ارسا اپنی مرضی سے مختلف پیراز کو ملاکر نیا فارمولا باننے کی اہل نہیں ہے۔ ارسا کا کام صرف 1991 معاہدے پر من و عین عمل درآمد کرنا ہے، مگر ارسا اپنے جائز اختیارات سے بڑھ کر یہ بھی طے کرنے لگی ہے کہ قلت کی صورت میں کس کو کتنا حصہ دینا چاہیے جو غیر آئینی ہے۔‘
’سندھ، پنجاب پانی تنازع قیام پاکستان سے پہلے کا ہے‘
صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو کے مطابق سندھ اور پنجاب کا پانی تنازع قیام پاکستان سے بھی پہلے کا ہے۔ ان کے مطابق’برطانیہ دور حکومت کے دوران جب سندھ میں سکھر بیراج کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی اور سکھر بیراج 1932 میں مکمل ہوا۔ پنجاب نے سکھر بیراج کی تعمیر پر شدید احتجاج کرتے اس وقت انگریز سرکار کی آبپاشی وزارت کے پاس اپنا مقدمہ رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ بیراج کے لیے پنجاب سندھ کو پانی نہیں دے سکتا۔‘
واضح رہے اسی دور میں پنجاب نے دریائے ستلج پر بھکرا ڈیم (جو قیام پاکستان کے پاس بھارت کے پاس چلا گیا) پر شدید اعتراض کیا تھا۔
جام خان شورو کے مطابق ’دریائے سندھ کے پانی پر سندھ اور پنجاب کے درمیان 1945 میں پانی معاہدہ کرانے سے پہلے انگریز سرکار نے ’راؤ کمیشن‘ بنایا، جس نے رپورٹ دی کہ سندھ چوں کہ لوئر رپریئن یا دریا کے آخر میں واقع ہے اس لیے پانی پر سندھ کا زیادہ حق ہے۔‘
’کمیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ سندھ کا حق بڑے عرصے سے نہیں دیا گیا۔ جس پر انگریز سرکار نے پنجاب حکومت پر جرمانہ لگایا کہ وہ سندھ میں دو بیراج تعمیر کراکے دے۔ جس پر پنجاب نے شدید احتجاج کیا تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد انگریز چلے گئے، پاکستان بن گیا، اور وفاقی حکومت نے سندھ میں دو بیراج، گُڈو بیراج اور کوٹری بیراج تعمیر کراکے دیے۔‘