وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی سکیورٹی سے متعلق خدشات کے بارے میں باقاعدہ کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔
یہ بات منگل کو انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتائی ہے۔
گذشتہ چند دنوں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی جانب سے ان کے تحفظ کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 14 مئی 2022 کو اپنے قتل کی سازش کا دعوی کیا اور ممکنہ ذمہ داران کے نام کے ساتھ وڈیو ریکارڈ کروانے کا بھی بتایا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سکیورٹی تھریٹس کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص زہر کے ذکر نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور اس معاملے پر کئی سوالات بھی کیے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی جانب سے وزارت داخلہ کو خط لکھنے کا بھی دعوی کیا گیا جس میں پی ٹی آئی کے اپنے وسائل سے عمران خان کو سکیورٹی دینے اور حکومت کی جانب سے سکیورٹی کے انتہائی محدود اقدامات کیے جانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کا موقف
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ترجمان وزارت داخلہ علی نواز نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیراعظم کی سکیورٹی کے حوالے سے باقاعدہ کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اپنے ایک بیان میں عمران خان کی جان کو ممکنہ خطرے سے متعلق ٹھوس ثبوت وزارت داخلہ سے شیئر کرنے کا بھی کہا تاکہ حکومت اس معاملے کی مکمل تحقیقات کروا سکے اور ساتھ عدالتی کمیشن بھی قائم کرنے کی پیشکش کی جو فراہم کردہ شواہد اور معلومات کا جائزہ لے کر آزادانہ فیصلہ دے سکے۔
پی ٹی آئی کا موقف
انڈپینڈنٹ اردو نے وزارت داخلہ کو خط موصول نہ ہونے سے متعلق شہباز گل سے رابطہ کیا لیکن ان کا موقف نہ مل سکا۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’عمران خان کو سکیورٹی فراہم کرنے سے متعلق شہباز گل نے خط لکھا۔ اب اگر کوئی سیکشن افسر خط پھینک دے تو ہم اس کا کیا کر سکتے ہیں۔‘
سابق وزرائے اعظم کو سکیورٹی فراہم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
ترجمان وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ سابق وزرائے اعظم کو سکیورٹی فراہم کرنے کے ایس او پیز ہوتے ہیں۔ ہر سابق وزیر اعظم کو حالات کی نوعیت کے مطابق سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے جس کا وقت کے ساتھ باقاعدہ جائزہ لیا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ کے ماتحت ایک کمیٹی قائم ہے جس کا کام خطرے کی تشخیص کرنا ہے۔ یہ کمیٹی انٹیلی جنس بیورو، سپیشل برانچ، اسلام آباد پولیس اور متعلقہ اداروں کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیتی ہے۔
یہ کمیٹی انٹیلی جنس رپورٹس اور ممکنہ خطرات کا جائزہ لینے کے بعد سکیورٹی کی ضرورت پر کام کرتی ہے۔
عمران خان کو حکومت جانے کی صورت میں سکیورٹی خدشات تھے؟
ترجمان وزارت داخلہ علی نواز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ وزیراعظم آفس کی جانب سے آٹھ اپریل 2022 کو وزارت داخلہ کو ایک خط موصول ہوا جس کے متن میں عمران خان کو ملنے والی دھمکیوں / ممکنہ خطرات کا بتایا گیا اور کہا گیا کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کو مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے۔
اس وقت کمیٹی نے خطرے کی تشخیص کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو فوری طور پر زندگی کا کوئی خطرہ نہیں تھا اور صورتحال کے مطابق انہیں سکیورٹی فراہم کر دی گئی جو آج تک ان کے پاس ہے۔
ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق: اس وقت کی صورتحال کے مطابق گھر کے اطراف میں دو پولیس اہلکار اور ایک فرنٹیئر کور پلاٹون دی گئی جبکہ نقل و حرکت کے دوران ایک پولیس سکاٹ اور ایک رینجرز سکارٹ تعینات کی گئی تھی۔
اس کے ساتھ کابینہ ڈویژن کو ایک بلٹ پروف گاڑی بھی مہیا کرنے کا کہا گیا تھا۔
کمیٹی کی جانب سے سکیورٹی انتظامات کا چھ ماہ جائزہ لیے جانے کا بھی کہا گیا۔ واضح رہے کہ ہر سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔
عمران خان کی سکیورٹی کی اب کیا صورتحال ہے؟
ترجمان وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کوسابق وزیراعظم کے لیے تعینات سکیورٹی فورسز کی تعیناتی پر مکمل عملدرآمد کے لیے کہا گیا ہے۔
بنی گالا ہاؤس کی سکیورٹی کے لیے پولیس اورایف سی کے 94 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جس میں اسلام آباد پولیس کے 22 جب کہ ایف سی کے 72 اہلکار شامل ہیں۔
اس کے علاوہ خیبرپختونخواہ پولیس کی طرف سے 36، گلگت بلتستان پولیس کے چھ اہلکاروں کو بھی ان کی متعلقہ حکومتوں کی جانب سے تعینات کیا گیا ہے۔
نجی سکیورٹی کمپنی کے بھی 35 اہلکار بنی گالا کی سکیورٹی پر مامور ہیں۔ اسلام آباد سے باہر نقل و حرکت کے دوران اسلام آباد پولیس کی چار گاڑیاں اور 23 اہلکار جب کہ رینجرر کی ایک گاڑی اورپانچ اہلکاران کے ساتھ ہمہ وقت موجود ہوں گے۔
ماضی میں سابق وزرائے اعظم کو سکیورٹی خدشات لاحق تھے؟
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی اور سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو شدید خطرات تھے، وطن واپس آنے سے قبل انہوں نے خود ہی پرویز مشرف کو ایک خط لکھا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلا واقعہ سانحہ کارساز کا تھا جو سکیورٹی لیپس ہی تھا اگر سکیورٹی کو یقینی بنایا جاتا تو سانحہ کارساز بھی پیش نہ آتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلے ایک سابق وزیراعظم کو سکیورٹی کے خدشات کے باوجود سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ اب اگر عمران خان سکیورٹی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں تو اس معاملےکو سنجیدگی سے دیکھا جائے۔
فرحت اللہ بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو خطرات تھے۔ اس وقت کی حکومت کو سابق وزیر اعظم کو کئی مرتبہ سکیورٹی فراہم کرنے کا کہا گیا لیکن حکومت نے سکیورٹی فراہم نہیں کی۔ یہاں تک کے بے نظیر بھٹو نے اپنے ہاتھ سے حکومت کو ایک خط لکھا جس میں لوگوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’سکیورٹی خطرات کی نوعیت یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو نے مجھے خط لکھ کر کہا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو سب سے پہلے کس کو اور کس طرح خبر دینی ہے۔‘