ایمرجنسی، مارشل لا، فوج کو طلب کرنے کا اعلان، ارکانِ اسمبلی کی بغاوت، اسمبلی کی دیواریں پھلانگ، کھرکیاں توڑ کر اسمبلی کے اندر داخل۔
یہ بنگلہ دیش، سوڈان، نائجر، یا ۔۔۔ ایسے ہی تیسری دنیا کا کوئی ملک نہیں، جنوبی کوریا کی بات ہو رہی ہے جس کی آبادی پاکستان سے پانچ گنا کم اور معیشت پانچ گنا بڑی ہے۔ جس کی شرحِ خواندگی سو فیصد ہے، تعلیمی نظام صفِ اول کا ہے، سیم سنگ، ایل جی، ڈائیوو، کیا اور ہنڈائی جیسی کمپنیاں دنیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ اور تو اور، اسی کوریا کی فلم نے چار سال پہلے آسکر ایوارڈ جیتا، اور اسی سال یہاں کی ادیبہ اس سال کا نوبیل انعام بھی لے اڑیں۔
تو پھر اس ترقی یافتہ، پڑھے لکھے اور مالدار ملک میں ایسا کیا ہوا کہ یہاں سے وہ خبریں آ رہی ہیں جو عام طور پر تیسری دنیا کے ملکوں سے وابستہ سمجھی جاتی ہیں؟
گذشتہ رات جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے رات 11 بجے اچانک ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے ’میرے ہم وطنو‘ کے بعد کہا، ’میں جمہوریہ کوریا کے صدر کی حیثیت سے ملک کے سامنے اس حالت میں اپیل کر رہا ہوں کہ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔‘
تقریر خاصی لمبی ہے، لیکن قصہ مختصر انہوں نے ملک میں مارشل لا کا اعلان کر دیا۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ حزبِ اختلاف شمالی کوریا کے ساتھ مل کر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو رہی ہے۔
صدر نے آرمی چیف پارک آن سو کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرتے ہوئے ’تمام سیاسی سرگرمیوں‘ بشمول سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اور عام شہریوں کے مظاہروں پر پابندی عائد کر دی۔ جنرل پارک نے کہا، ’تمام میڈیا اور اشاعتی ادارے مارشل لا کمانڈ کے کنٹرول میں ہیں۔‘
صدر کی تقریر پر ردِ عمل
صدر کی تقریر کے فوراً بعد قومی اسمبلی کی عمارت پر سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے۔ فضا میں ہیلی کاپٹر گردش کرنے لگے۔ سیول میں کوئی ڈی چوک نہیں ہے لیکن جہاں اسمبلی واقع ہے وہاں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ لیکن یہ عام ٹریفک کی رکاوٹیں تھیں، کنٹینر نہیں۔
یہ خبر ملتے ہی ملک بھر میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ حزبِ اختلاف نے اس اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا اور ارکانِ اسمبلی سے کہا کہ وہ صدر کے فیصلے کو مسترد کر دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپوزیشن لیڈر لی جے میونگ نے قومی اسمبلی جاتے ہوئے ایک ویڈیو میں شہریوں سے وہاں جمع ہونے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا، ’مارشل لا نافذ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہم اس ملک پر فوج کی حکمرانی نہیں ہونے دے سکتے۔ صدر یون سک یول نے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔‘
مظاہرین اسمبلی کے قریب جمع ہو گئے اور ’مارشل لا ختم کرو! مارشل لا ختم کرو!‘ کے نعرے سیول کی فضاؤں میں گونجنے لگے۔ حتیٰ کہ یون کی اپنی جماعت ’پیپلز پاور پارٹی‘ کے رہنما ہان ڈونگ ہون نے فیس بک پر پوسٹ کیا کہ مارشل لا کا اعلان غلط ہے اور ’ہم عوام کے ساتھ مل کر اسے روکیں گے۔‘
ارکانِ اسمبلی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسمبلی پہنچ گئے۔ دروازے بند ملے تو انہوں نے دیواریں اور جنگلے پھلانگے اور کھڑکیاں توڑ کر اسمبلی کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ آدھی رات کے بعد اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مارشل لا کے خلاف قرارداد منظور کر لی۔ یہ کارروائی سوشل میڈیا پر براہِ راست نشر کی گئی۔
ردِ عمل اس قدر شدید آیا کہ رات ساڑھے چار بجے صدر نے مارشل لگانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
لیکن اس سے گرد نہیں بیٹھی اور اب حزبِ اختلاف صدر کے مواخذے کی قرارداد دائر کر دی ہے اور ان کے استعفے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
قومی اسمبلی صدر کو اس وقت مواخذے کے ذریعے ہٹا سکتی ہے جب اس کے دو تہائی اراکین حق میں ووٹ دیں۔ یون کی پارٹی کے پاس 300 رکنی پارلیمنٹ میں 108 نشستیں ہیں۔
صدر یون سک یول کون ہیں؟
یون سابق پراسیکیوٹر ہیں جنہوں نے 2022 میں ایک انتہائی سخت مقابلے کے بعد معمولی مارجن سے صدارتی انتخاب جیتا تھا۔ ان کا تعلق قدامت پسند دھڑے سے ہے اور شمالی کوریا کے خلاف زیادہ جارحانہ موقف اور امریکہ کے ساتھ مضبوط اتحاد ان کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
صدارت کی کرسی سنبھالنے کے بعد یون نے ’فیک نیوز‘ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا جس کی زد میں کئی میڈیا ادارے آئے۔ اس دوران ان کی حزبِ اختلاف کے ساتھ زبردست رسہ کشی چلتی رہی۔
جنوبی کوریا کا آئین کیا کہتا ہے؟
آئین کے مطابق صدر اس وقت مارشل لا نافذ کر سکتے ہیں جب ملک کی سلامتی کو خطرہ ہو یا امن و امان کا مسئلہ درپیش ہو تو ایسی ہنگامی صورتِ حال میں وہ فوج کو متحرک کر سکتے ہیں۔‘
اس کے تحت آزادیِ اظہار، میڈیا، لوگوں کے اجتماع اور اسی قسم کی دوسری آزادیوں پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔
آئین کے تحت، پارلیمنٹ کی اکثریتی ووٹ کے ذریعے مارشل لا ختم کیا جا سکتا ہے۔ قانون کے مطابق، ’جب نیشنل اسمبلی مارشل لا کے خاتمے کی درخواست کرے تو صدر اسے فوری طور پر ختم کرنے اور اعلان کرنے کے پابند ہیں۔‘