سوموار کو افغانستان کے دارلحکومت کابل میں ہونے والے کار بم دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور 50 بچوں سمیت 105 زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے بعد کچھ مسلح افراد ایک قریبی عمارت میں داخل ہوگئے۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے مقابلے کے بعد وزارت داخلہ نے تصدق کی کہ سکیورٹی اہلکاروں نے پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔
دھماکہ کابل کے پلی محمود خان علاقے میں ہوا جہاں بڑی تعداد میں سرکاری عمارتیں اور فوجی رہائش گاہیں موجود ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دھماکے کی ذمہ داری شدت پسند گروہ طالبان نے قبول کی ہے۔ دھماکے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ دو کلو میٹر تک کے دائرے میں موجود عمارتیں لرز کے رہ گئیں اور آسمان پر دھویں کے گہرے بادل بھی دیکھے گئے۔
اے ایف پی کے رپورٹرز کے مطابق دھماکے کے بعد فائرنگ اور کئی چھوٹے دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے کہا کہ سپیشل فورسز کی جانب سے علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کے خلاف کارووائی کی جا رہی ہے اور اب تک دو حملہ آور ہلاک ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ علاقے سے 210 افراد کو ریسکیو بھی کیا گیا ہے۔
وزارت صحت کے ترجمان واحد اللہ مایار نے بتایا کہ دھماکے میں اب تک کم سے کم ایک شخص ہلاک جبکہ 93 زخمی ہو چکے ہیں جنہیں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ زخمیوں میں 50 کم عمر بچے بھی شامل ہیں جو دو قریبی سکولوں کے طالب عمل ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔
کابل کے ایمرجنسی ہسپتال کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹویٹ کے مطابق زخمیوں میں شامل بچے سکول جا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر بھی سامنے آئیں ہیں جس میں سکول یونیفارم میں زخمی بچے ہسپتال لاتے ہوئے خوفزدہ حالت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کئی اپنی کتابیں تھامے ہوئے ہیں۔
حملے کی زمہ داری قبول کرتے ایک بیان میں طالبان ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا کہ حملہ آوروں نے افغان وزارت دفاع کی ایک عمارت کو نشانہ بنایا ہے، البتہ حکام کی جانب سے ابھی تک حملے کے ہدف کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حملے کے فوری بعد سیکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ ایمبولینسوں کو متاثرہ عمارت کی جانب جاتے دیکھا گیا۔ فائرنگ کی آوازوں کے دوران فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کو بھی پرواز کرتے دیکھا گیا۔ وزارت ثقافت کے ایک اہلکار ظاہر عثمان کہتے ہیں: ’ہم اپنے دفتر میں بیٹھے تھے جب سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔‘ وزارت ثقافت کی عمارت دھماکے کی جگہ سے صرف 150 میٹر فاصلے پر ہے۔
عثمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب ان کی آنکھیں کھلی تو ان کا دفتر دھویں سے بھرا ہوا تھا اور ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد چیخ و پکار کر رہے تھے۔
افغان فٹ بال فیڈریشن کے ترجمان شمس امینی کے مطابق دھماکہ فٹ بال فیڈریشن کے ہیڈ کوارٹر کے گیٹ کے قریب ہوا۔ وہاں کام کرنے والے کچھ افراد بھی زخمی ہوئے۔
قریب ہی واقع شمشماد ٹی وی سٹیشن کی عمارت میں بھی شیشے ٹوٹنے اور سامان گرنے سے کافی نقصان ہوا ہے۔ یہ ٹی وی سٹیشن 2017 میں بھی ایک حملے کا نشانہ بنا تھا۔ شمشاد ٹی وی کے اینکر حشمت ستنکزئی نے کہا: ’میں بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔‘
امریکہ طالبان مذاکرات
یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ساتواں دور اپنے تیسرے روز میں داخل ہو رہا ہے۔ مذاکرات کا یہ دور ستمبر میں ہونے والے افغان صدارتی انتخاب سے قبل بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
حملے کے بعد مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں تصدیق نہیں ہو سکی۔
حملے کے دوران ہی دوہا میں موجود طالبان ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ طالبان کابل حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
سہیل شاہین نے اپنے ٹویٹ میں کہا: ’جب تک غیر ملکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کی تاریخ نہیں دی جاتی، جو عالمی مبصرین کی موجودگی میں طے ہونی چاہیے، ہم اس وقت تک افغان فریقین سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ لیکن ہم کابل کے حکام سے بطور حکومت مذاکرات نہیں کریں گے۔‘ افغانستان میں اس وقت 20 ہزار کے قریب غیر ملکی فوجی موجود ہیں جن میں بڑی تعداد امریکی فوجیوں کی ہے۔
طالبان کی جانب سے مغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔ طالبان کابل حکومت کو مغربی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات میں چار اہم امور پر غور کیا جا رہا ہے جن میں انسداد دہشت گردی، افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی، افغان امن عمل اور مستقل جنگ بندی جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔
کسی ممکنہ معاہدے کی صورت میں امریکہ 17 سال بعد افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لے گا۔ اس بارے میں افغان حکام کی جانب سے سخت تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کیونکہ ان کے مطابق امریکی انخلا کے بعد جنگجو گروہ طالبان ملک میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے جوابی طور پر شدت پسندوں کو پناہ نہ دینے کی گارنٹی دی جائے گی۔ 2001 سے پہلے القاعدہ کو افغانستان میں پناہ دی گئی تھی۔
تاہم امریکی حکام کے مطابق تمام معاملات پر اتفاق رائے نہ ہونے تک کچھ بھی طے نہیں کیا جا سکتا۔
گذشتہ روز بھی طالبان کی جانب سے ایک سرکاری دفتر میں کیے جانے خود کش حملے کے دوران آٹھ الیکشن اہلکار اور 11 افغان فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سوموار کی صبح ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کابل میں ہونے والے کار بم دھماکے میں ہونے والے نقصان پر اظہار افسوس کیا اور حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا ہے۔