بلوچستان کی کابینہ نے سالانہ بجٹ کی منظوری منگل کو دے دی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت صوبائی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا گیا۔
بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کا کل حجم 612 ارب روپے ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ترقیاتی اخراجات کا حجم 191.5 ارب روپے ہے اور آئندہ مالی سال میں نوجوانوں کے لیے 2851 نئی آسامیاں رکھی گئی ہیں۔
آئندہ مالی سال کےبجٹ میں صحت، تعلیم، امن وامان، مواصلات کو ترجیح دی گئی ہے۔
وفاق کی جانب سے 28.3 ارب جبکہ فارن فنڈنگ منصوبوں پر 14.6 ارب صوبائی ترقیاتی پروگرام کے لیے اس کے علاوہ ہیں ۔ جاری ترقیاتی سکیموں کے لیے 133 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں نیز 3470 نئی سکیمیں کے لیے 59 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ عبدالرحمان کھیتران نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ رواں مالی سال 2021-22 کا کل بجٹ کا غیر ترقیاتی تخمینہ 347ارب روپے تھا۔ نظر ثانی بجٹ برائے سال کا تخمینہ 332 ارب روپے ہوگیا ہے۔ رواں مالی سال2021-22کے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ172ارب روپے تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینہ میں کم ہو کر 93ارب روپے ہو گیا ہے جس میں 3367جاری ترقیاتی سکیموں کے لیے 133ارب روپے جبکہ 3470نئی ترقیاتی سکیموں کے لیے59ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔
بجٹ پیش کرنے کے بعد بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کے روز تک ملتوی کردیا گیا۔
17 جون کو طلب کیے گئے بجٹ اجلاس کے انعقاد سے ایک دن پہلے ہی اس کی تاریخ بدل کر اسے 20 جون کردیا گیا، تاہم 20 جون کو بھی اسے ری شیڈول کرکے آج طلب کیا گیا۔
گذشتہ روز محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں اجلاس میں تاخیر کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو چونکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے کونسل سیشن میں شریک تھے، تو ان کی وہاں مصروفیات کے باعث اجلاس مزید ایک دن موخر کیا جاتا ہے۔
بیان کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے بجٹ اجلاس ری شیڈول کرنے کے لیے قائم مقام گورنر کو مراسلہ ارسال کیا گیا اور اس کے بعد اجلاس کی تاریخ بدل گئی۔
اس صورت حال پر سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سید علی شاہ کہتے ہیں: ’بجٹ ایک انتہائی اہم دستاویز ہے، اس سے حکومت کی پالیسیوں کا پتہ چلتا ہے اور اسے پیش کرنے میں تاخیر کی روش ختم ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بلوچستان میں بجٹ کے حوالے سے مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ’ہم نے دیکھا کہ دوسری مرتبہ بلوچستان کا شیڈول شدہ اجلاس دوبارہ ری شیڈول کردیا گیا۔ یہ غلط بات ہے۔‘
سید علی شاہ کہتے ہیں کہ یہ پیسہ بلوچستان کے عوام کا ہے اور وزیراعلیٰ، وزرا اور پارلیمانی سیکرٹریز کو احساس کرنا چاہیے کہ لوگ انتظار کررہے ہیں کہ یہ کیا فیصلے کریں گے۔
بجٹ میں کیا ہے؟
موجودہ بجٹ میں خواتین کے لیے انٹرن شپ کا پروگرام رکھا گیا ہے جس کے لیے بجٹ میں 100 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بجٹ میں کم عمر قیدیوں کے لیے بورسٹل انسٹی ٹیوٹ کا قیام بھی عمل میں لایا جائےگا جس کےلیے دس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
نئے بجٹ میں اقلیتوں کے محکمے کے ڈائریکٹوریٹ کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد 2017 کی بنیادی تنخواہ کے مطابق پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا۔ جبکہ ایڈہاک الاؤنسز وفاقی حکومت کی طرز پر ضم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
بجٹ اجلاس کے دوران حسب روایت صحافیوں کو بجٹ دستاویزات کی کاپیاں فراہم نہیں کی گئیں۔ جس کی وجہ سے انہیں بجٹ کے حوالے سے اعداد وشمار جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بجٹ میں بے نظیرڈیجیٹل لائبریری ، غوث بخش بزنجو، اور باچا خان لائبریری کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔
کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ خواتین کے لیےکھیل کےمراکز بھی قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا جس کے لیے بجٹ میں پانچ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئٹہ اور گرد و نواح کے علاقوں میں ایک ارب روپے سے نئے ڈیمز بنائے جائیں گے جو وفاقی بجٹ میں شامل ڈیمز کے علاوہ ہیں۔
اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ اسمبلی کے سامنے بغیر احتجاج کے بجٹ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان باقی صوبوں سے 200 سال پیچھے ہے۔ وزیراعظم نے صوبے کو بہتر بجٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ جام کمال کی غیر موجودگی پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر وہ ہوتے تو میں خوش ہوتا لیکن جو لوگ ان کے ساتھ آج وہ اسمبلی میں موجود تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سابقہ ادوار میں ہم نے دیکھا کہ اپوزیشن نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑیں اور اور احتجاج بھی کرتے رہے لیکن آج سب نے دیکھا کہ کوئی احتجاج اور شور شرابا نہیں ہوا۔
بجٹ پیش کرنے کے بعد ڈپٹی سپیکر بابر موسیٰ خیل نے اجلاس دو روز کے لیے ملتوی کردیا۔
ملازمین کا احتجاج
بلوچستان میں سرکاری ملازمین کے اتحاد ایمپلائز اینڈ گرینڈ الائنس نے پیر کو احتجاج کی کال دی تھی، جو بجٹ اجلاس موخر ہونے کے باوجود جاری رہا۔
مظاہرین نے ریڈ زون کی طرف جانے کی کوشش کی تو پولیس نے ان پر شیلنگ کی جس سے بعض ملازمین زخمی ہوئے، جس پر سرکاری ملازمین نے گورنر ہاؤس کے قریب دھرنا دیا۔
کئی گھنٹے گزرنے کے بعد سرکاری ملازمین کے نمائندوں کی وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات ہوئی اور کامیاب مذاکرات کے بعد انہوں نے سکولوں اور سرکاری دفاتر میں ہڑتال کی کال اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
سرکاری ملازمین کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ حکومت ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے اور ملازمین کو حقوق کی فراہمی سے انکار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہڑتالوں اور دھرنوں سے عام شہری متاثر ہوتے ہیں اور سڑکیں بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب سے ہم نے حکومت سنبھالی بہت سے دھرنوں کو بات چیت کے ذریعے حل کیا، ہمارے صوبے کی اپنی روایات ہیں۔ ہمیں بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل پر یقین ہے۔‘
انہوں نے یقین دہائی کروائی کہ اگلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے خوش خبری ہے اور اس میں تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات بھی شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ مالی مسائل اور وسائل کی کمی کے باوجود ملازمین کے مفادات کو تحفظ دیا جا رہا ہے تو ملازمین بھی حکومت کی مالی مجبوری اور زمینی حقائق کا ادراک کریں۔
وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے مزید کہا کہ ’ہم نے پورے صوبے کے عوام کو دیکھنا ہے، صوبے کے وسائل کا بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں صرف ہوتا ہے۔‘