اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا کہ انہیں ہم پر اعتبار نہیں۔’آپ بھی تو پاکستان کی حکومت ہیں، ہم آپ پر کس طرح اعتبار کریں۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پیٹرولیم لیوی ٹیکس میں 30 روپے اور 17 فیصد سیلز ٹیکس کا معاہدہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے جو معاہدہ کیا بعد میں ان تمام شرائط کی دھجیاں بکھیر دیں جن کی مثال یہ ہے کہ مارچ میں دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں مگر تحریک انصاف کی حکومت نے قیمتوں کو کم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف تلا ہوا تھا کہ معاہدے تمام شقیں پوری کی جائیں اور ہمیں اعتبار نہیں ہے، ریاست کا طرہ امتیاز ہوتا ہے کہ معاہدے کی پاسداری کی جائے، یا تو آئی ایم ایف کی شرطیں نہ مانتے کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے لیکن شرطیں مان کر ان پر دستخط کرنے کے بعد ان کی دھجیاں اڑا دیں، تو آج آئی ایم ایف کہتا تھا کہ آپ بھی تو پاکستان کی حکومت ہیں، ہم آپ پر کس طرح اعتبار کریں۔
شہبازشریف نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ہماری شرائط طے ہو گئی ہیں اور امید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اگر آئی ایم ایف نے مزید کوئی اور شرط نہ لگا دی تو یہ معاہدہ طے پا جائے گا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں راتوں رات خوشحالی نہیں آئے گی، ہمیں اپنی مالیاتی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے جس کے بعد ورلڈ بینک اور ایشین بینک بھی ہم سے رجوع کریں گے اور آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد اسلامی ممالک سے بھی تعاون پروان چڑھے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ساڑھے تین برس کی حکومت میں ان کو یہ یاد نہیں آیا کہ غریب عوام کو ریلیف دیں مگر رواں برس مارچ میں جب انہوں نے دیکھا کہ شکست ان کا مقدر ہے تو پھر اچانک تیل کی قیمتیں کم کردیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ رواں سال اپریل میں جب میں نے حلف اٹھایا تو سب سے پہلے یہ شاک لگا کہ گزشتہ حکومت نے فنڈ مہیا نہیں کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک ہم سے آگے نکلے گئے اور ہم وہیں کے وہیں ہیں لیکن میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ پرسوں چین نے ایسے حالات میں ہمیں 2.3 ارب ڈالر کا قرض دیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ بے پناہ ہیں اور وہ اس لیے ہیں کہ 75 برس گزرنے کے باوجود اب بھی ہم کشکول لے کر پھرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر سمیت دیگر دوست ممالک کی بات ہمیشہ کرتا ہوں جنہوں نے ہمیشہ مشکل حالات میں پاکستان کا مالی طور پر سیاسی طور پر اور سفارتی محاذ پر ساتھ دیا۔
انہوں نے کہا چین کب تک ہماری مدد کرے گا، چین کہتا ہوگا کہ یہ کب تک ہم سے مانگے گے اسی طرح سعودی عرب بھی سوچتا ہوگا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں یہ کب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے گندم، چینی اور دیگر اشیا پر سبسڈی دے کر ملک کا خزانہ خالی کردیا اور سکینڈل پر سکینڈل کرتے رہے جس کی وجہ سے ہم قیمتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہیں اور مسلم لیگ کے قائد نواز شریف سمیت تمام قیادت اس بات پر دکھی ہے کہ قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن سب کے ذہن میں ایک بات تھی کہ پہلے ریاست پھر سیاست، اگر ریاست ہوگی تو سیاست بھی ہوگی۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ تاریخ میں پہلی بار امیر طبقے پر ٹیکس لگایا گیا ہے کیونکہ غریب آدمی نے ہر دور میں قربانی دی ہے اور وہی پاکستان کا اصل معمار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گیس کے ذخائر اب کم ہو رہے ہیں اور ہمیں اب گیس کی ضرورت ہے مگر گیس مل نہیں رہی کیونکہ پچھلی حکومت نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے چین پر اتنی غیرضروری تنقید کی، ان پر الزامات عائد کیے کہ سی پیک پلانٹس میں کرپشن ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی چین نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ہم منصوبوں کو آگے بڑھائیں گے۔