عمران خان کا پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں حقیقی آزادی، غلامی نامنظور کا جلسہ جی ایچ کیو کی مشروط اجازت کے بعد آج منعقد ہونے جا رہا ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کم از کم جلسے جلوسوں میں عمران خان اچھی تعداد میں لوگ اکٹھے کر لیتے ہیں، سو پریڈ گراؤنڈ جلسے کو بھی ابھی سے ’ایک کامیاب جلسہ‘ کہے دیتے ہیں لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ اقتدار سے نکالے گئے خان صاحب کو آج پورے بیاسی (82) روز ہوگئے۔ ان کم و بیش تین ماہ میں عمران خان نے سیاسی اعتبار سے کیا کامیابی حاصل کی اور ناکامی کہاں سمیٹی۔
چند روزقبل سابق آرمی کیپٹن، سابق پی پی جیالے، سابق ن لیگی، سابق ایڈیٹر، سابق اینکر اور موجودہ تجزیہ کار و انصافی سہولت کار محترم ایاز امیر صاحب نے عمران خان کو ’لات مار کر نکالے گئے چے گویرا‘ سے جو تشبیہہ دی تو سوال تو بنتا ہے کہ کیا عمران خان واقعی ایک بار پھر 2011 سے قبل کے نظریاتی جنگجو بن چکے ہیں یا یہ محض ایک مصالحتی مصلحت ہے؟
ایاز امیر صاحب نے تو جو چند جملی روبرو آئینہ دکھایا تھا وہ گویا ایک سابق آرمی کیپٹن کا ایک سابق کرکٹ کیپٹن سے ایسا جزوقتی مکالمہ تھا، جس کا محض اتنا ہی ربط ہے جتنا جنگ کے میدان کا کھیل کے میدان سے۔
لیکن اقتدار سے محرومی کے لگ بھگ تین ماہ بعد بھی کیا عمران خان کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دورِ حکمرانی کی غلطیوں کا احساس کیا ہے اور ان غلطیوں کے ایسے ازالے کی جانب قدم بڑھایا ہے جو نہ صرف انہیں سیاسی استحکام مہیا کر سکیں بلکہ بطور ایک قومی لیڈر ان کے تشخص اور تاثر کو سنوار سکیں۔
کیا عمران خان نے ایسے راستے کی طرف قدم بڑھایا ہے جہاں خود احتسابی منزل پر پہنچنے کی سب سے پہلی شرط ہو۔ ان سوالات کا جواب کم از کم میرے پاس تو نفی میں ہے۔
بجائے اس کے کہ خان صاحب اپنے دور اقتدار کے گریبان میں جھانکتے، انہوں نے الٹا دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے کی روش اپنانے میں آسانی جانی۔ نتیجہ کیا نکلا کہ تین ماہ کے اندر اندر ہی غیر ملکی سازش، حقیقی آزادی، غلامی نامنظور کے آرٹیفیشل گیس کے غبارے میں سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی اور اب آہستہ آہستہ نائیلون کے ربڑ جیسی ایک پُھس پُھسی سی باقیات ہی ہاتھ میں رہ گئی ہیں، جن میں منہ بھر بھر کر ہوا بھرنے کی دوبارہ کوشش کی جا رہی ہے۔
روزمرہ کا یہ عالم رہ گیا ہے کہ خان صاحب کبھی ٹویٹ کرتے ہیں، کبھی تنہا پریس کانفرنس سجا لیتے ہیں، کبھی قوم سے خطاب کے تین چار سالہ چسکے کو دوبارہ دہرا لیتے ہیں، کبھی میڈیا، سوشل میڈیا کے حمایتیوں کی محفل لگا لیتے ہیں، کبھی ڈیجیٹل رعنائیوں کی رونق بڑھا لیتے ہیں، زیادہ بور ہو جائیں تو ایک آدھ انٹرویو کروا لیتے ہیں، لیکن کہنے کو کچھ نیا نہیں ہے۔ کوئی ایسی نئی بات نہیں جو قوم تو دور کی بات خود ان کے اپنے ووٹرز سپورٹرز کو چونکا دے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حد تو یہ ہو گئی ہے کہ کسی ٹی وی چینل پر عمران خان صاحب کا انٹرویو ہو تو اب تو برقی تاروں میں بھی کوئی کرنٹ نہیں دوڑتا، عمران خان کی گفتگو، ان کے بیانات معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، جن میں عوام الناس کی بڑی تعداد کے لیے اب دلچسپی یا توجہ کا عنصر باقی نہیں رہا۔
پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ کرکے بھی خان صاحب نہ تو حکومت کی صحت پر کوئی اثر ڈال سکیں گے نا پریڈ والوں کی۔ یہ جلسہ تیزی سے معدوم اور کمزور ہوتے بیانیے کو سہارا دینے کے لیے تو استعمال ہو سکتا ہے لیکن نہ تو یہ ووٹر ٹرن آؤٹ کو رِجھا سکے گا نہ کوئی بہت بڑی سیاسی تبدیلی کی وجہ بن سکے گا۔
عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد مسلسل غلطیوں پر غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کی صورت میں جو سب سے بڑا کلہاڑا تحریک انصاف نے اپنے پاؤں پر مارا، اب باقی زخم بھی اسی چوٹ کی وجہ سے کھائے جا رہے ہیں۔ بجائے سڑکوں پر جلسے جلوسوں کے، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں موجود رہ کر موجودہ اپوزیشن کے لیے دردسر اور حکومت کے چلنے کے راستے میں بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آ سکتی تھی۔
یہ ایسا سنہرا سیاسی موقع گنوایا گیا، جس پر اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی گذشتہ روز افسوس کا اظہار کیا۔ وگرنہ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، پیٹرول کی قیمت، بجٹ وغیرہ وغیرہ پر جو احتجاج اور اپوزیشن اسمبلی کے اندر سے ہو سکتی تھی، اس کا عشر عشیر بھی سڑکوں پر جلسے کرنے سے موجودہ صورت حال میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ نیز اسمبلی کی اپوزیشن کی سیاسی حیثیت اورلیجی ٹمیسی (legitimacy) کا سڑکوں کی اپوزیشن سے کوئی مقابلہ نہیں۔
حکومت کے لیے بجٹ منظوری کے راستے میں تحریک انصاف قومی اسمبلی میں بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ سکتی تھی۔ حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی میں بجٹ پر بحث کا پارلیمانی عمل محض تماشہ ہی بنا۔
دوسری جانب عمران خان نے اگر سڑکوں پر ہی اپوزیشن کرنی ہے اور اپنے حالیہ ’سازش، غلامی، حقیقی آزادی‘ کے کمزور پڑتے بیانیے کو ہی مشعل راہ بنانا ہے تو پھر لازم ہے کہ خان صاحب اس مقصد کی مخلصی اور پختگی کو بھی واضح کریں۔
تاحال تاثر تو فقط یہی ہے کہ یہ صرف اور صرف اقتدار کی اور مفادات کی جنگ ہے جس میں براستہ من پسند راولپنڈی روڈ حتمی منزل وزیراعظم ہاؤس ہے۔ اس کام کے لیے خان صاحب پھر جتنے مرضی پریڈ گراؤنڈ جلسے براستہ راولپنڈی ریلی منعقد کرتے رہیں آخر میں لات والا چے گویرا ہی بننا پڑے گا اور یہ لات کتنی بارپڑتی رہے گی اس کا بھی کوئی شمار نہ ہو گا۔
لہذا عمران خان نے اگر حقیقی آزادی اور حقیقی کامیابی حاصل کرنی ہے تو پہلے حقیقی چے گویرا بنیں لیکن اگر صرف مصالحتی مصلحت کے تحت ہی جارحانہ مزاحمت کرنی ہے تو خود ہی چے گویرا کے فلسفے کو لات ماریں۔
جلسے جلوسوں، کمزور بیانیے پر اپنا اور عوام کا وقت اور پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس فارغ اور میسر وقت کو اپنی حاکمانہ حماقتوں کے ازالے اور درستی کے لیے استعمال کریں۔ جماعتی تنظیم کی طرف دھیان دیں کیونکہ پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج میں جو فاش غلطیاں سامنے آئیں گی ان کا خمیازہ خان صاحب کو بڑا مہنگا پڑے گا، لہذا بہتر ہے کہ خود کو اور اپنی جماعت کو سنبھالیں اور اتنا تگڑا اور مضبوط بنائیں کہ وقت آنے پر آئندہ لات نہ کھانی پڑے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔