امریکہ ایک مہم کے ذریعے روسی شہریوں کو اینٹی سینسر سافٹ ویئر تک رسائی فراہم کر رہا ہے تاکہ ماسکو کے یوکرین پر حملے کے خلاف اختلاف رائے رکھنے والوں کو کریک ڈاؤن سے بچایا جا سکے۔
روس نے فروری میں یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے آزاد میڈیا پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کے تحت صحافیوں کو یوکرین پر حملے پر تنقید کرنے یا اس حملے کو جنگ کہنے تک پر قانونی چارہ جوئی کا خطرہ ہے۔
امریکی حکومت کا حمایت یافتہ ’اوپن ٹیکنالوجی فنڈ‘ (او ٹی ایف) چند امریکی کمپنیوں کو رقم ادا کر رہا ہے جو لاکھوں روسیوں کو مفت ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (VPNs) فراہم کر رہے ہیں، جسے وہ سینسر کے ذریعے بلاک کی گئی ویب سائٹس پر جانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
روایتی وی پی این سافٹ ویئر انٹرنیٹ پر ڈیٹا کے لیے مؤثر طریقے سے ایک ٹنل بناتا ہے جو عام طور پر خفیہ ہوتا ہے اور جاسوسی سے محفوظ رکھتا ہے۔ روس کے حملے کے بعد سے ملک میں ان کا استعمال عروج پر ہے۔
یہ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک لینٹرین کے ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارا ٹول بنیادی طور پر وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو آزاد میڈیا تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لیے او ٹی ایف کی طرف سے فنڈنگ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔‘
ٹیک فرمز سفون (Psiphon) اور اینتھ لنک (nthLink) بھی روس میں لوگوں کو سینسر کے خلاف جدید ترین ایپلی کیشنز فراہم کر رہی ہیں اور او ٹی ایف کا اندازہ ہے کہ روس میں تقریباً 40 لاکھ صارفین نے ان فرمز سے وی پی این حاصل کیے ہیں۔
کمپنی کے سینیئر ایڈوائزر ڈرک روڈن برگ نے کہا کہ سفون نے روس میں صارفین کی جانب سے بڑے پیمانے پر اس کے استعمال کا مشاہدہ کیا ہے اور روسی صارفین کی تعداد 24 فروری کے حملے کے بعد صرف ایک دن میں تقریباً 48 ہزار سے بڑھ کر مارچ کے وسط تک 10 لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ روسی میں فرم کے ٹولز اب اوسطاً 15 لاکھ افراد یومیہ استعمال کرتے ہیں۔
یوکرین کی قیادت کی طرح کچھ گروپس نے روس کا انٹرنیٹ منقطع ہونے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ دیگر کا ماننا ہے کہ اپوزیشن گروپوں کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
او ٹی ایف کی کوششوں میں شامل نہ ہونے والے انسانی حقوق کے گروپ ’ایکسیس ناؤ‘ کی ٹیک لیگل کونسل نتالیہ کرپیوا نے کہا: ’روسیوں کے لیے پوری ورلڈ وائڈ ویب (www) سے منسلک ہونا بہت ضروری ہے تاکہ مزاحمت کو جاری رکھا جا سکے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس حوالے سے ہر طرح کے اقدامات ہو رہے ہیں اور انہیں جاری رکھنے کے لیے آپ کو انٹرنیٹ کی ضرورت ہے کیونکہ آپ ذاتی طور پر اجتماعات میں جمع نہیں ہو سکتے یا اس لیے بھی کیوں کہ سماجی کارکن دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں۔‘
لینٹرن کے ترجمان لوکاس نے کہا کہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں وی پی این کو چلانا اور قابل رسائی بنانا نسبتاً آسان تھا۔
لوکاس نے کہا: ’وہ کسی بھی چیز کو روکنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ روس نے آسان رسائی کو روکنے کا طریقہ سیکھ لیا لیکن لینٹرن اور سفون ابھی تک چل رہے ہیں۔‘
دوسری جانب روسی سینسر وی پی این سافٹ ویئر کو ان سرورز سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں جن پر وہ کام کرنے کے لیے انحصار کرتے ہیں یا لوگوں کو ایسی ویب سائٹس پر جانے سے روکتے ہیں جہاں سے ٹولز ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔
لوکاس نے کہا: ’تاہم لینٹرن جیسے گروپوں نے ایسے طریقے اپنائے ہیں جیسے آن لائن پلیٹ فارمز میں وی پی این انسٹالرز کو چھپانا تاکہ حکومت کے لیے اسے بلاک کرنا مشکل ہو جائے اور ایک نیٹ ورک بنانا تاکہ صارف ٹیکنالوجی کو دوسروں صارفین کے ساتھ شیئر کر سکیں۔‘
روس میں لوگ چین اور میانمار جیسے ممالک کی طرح سینسرشپ سے لڑتے ہوئے وی پی این بنانے والوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
او ٹی ایف کے ذریعے فراہم کی جانے والی امریکی حکومت کی فنڈنگ آپریشنز کے لیے اہم رہی ہے کیونکہ روس میں وی پی این بنانے والوں کے لیے لاگت بڑھ گئی ہے اور ان کی آمدنی ختم ہو گئی کیونکہ ان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں اور کمپنیاں ملک سے نکل گئیں۔
او ٹی ایف نے کہا کہ وہ عام طور پر وی پی اینز کی مالی اعانت کے لیے 30 سے 40 لاکھ ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے لیکن روس میں سینسرشپ کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا۔
کمپنی نے اے ایف پی کو بتایا کہ سفون کو 14 سال سے زیادہ عرصے سے امریکی حکومت کی فنڈنگ مل رہی ہے اور اس رقم سے عام طور پر آمرانہ حکومتوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے نئے حربوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹولز کو بہتر بنایا جائے گا۔
وی پی این ٹیکنالوجی کی رسائی بڑھانے کی کوششوں کے باوجود بہت سے لوگوں کو ابھی تک اس تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
ایکسیس ناؤ سے تعلق رکھنے والے کرپیوا نے اے ایف پی کو بتایا: ’روس میں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس اور دیگر طریقوں کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اب بھی آبادی کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔‘