آسٹریلیا سے امریکہ براہ راست نان سٹاپ پرواز 2026 میں شروع ہو گی: قنطاس

آسٹریلوی ایئرلائن قنطاس کے ’پروجیکٹ سن رائز‘ کا مقصد سڈنی سے لندن اور نیویارک کے درمیان رکے بغیر پرواز کا آغاز کرنا ہے لیکن طیارے 2026 میں دستیاب ہوں گے۔

28 اگست 2024 کو لی گئی یہ تصویر سڈنی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ایک قنطاس طیارے کو اڑاتے ہوئے دکھا رہی ہے (اے ایف پی)

آسٹریلوی فضائی کمپنی قنطاس دنیا کی سب سے طویل پرواز کا اعزاز حاصل کرنے کے مزید ایک قدم قریب پہنچ گیا ہے۔ فضائی کمپنی کے حکام کو امید ہے کہ طویل ترین پرواز آسٹریلوی عوام کے لیے دنیا کو مزید قریب کر دے گی۔

آسٹریلوی ایئرلائن کے ’پروجیکٹ سن رائز‘ کی تیاری تقریباً سات سال سے جاری ہے۔ اس منصوبے کا مقصد سڈنی سے لندن اور نیویارک کے درمیان رکے بغیر پرواز کا آغاز کرنا ہے تاہم اس منصوبے میں استعمال ہونے والے طیارے 2026 کے وسط تک دستیاب نہیں ہوں گے۔

منصوبے پر عمل میں کرونا کی وبا کی وجہ سے ہونے والی تاخیر اور ایئر بس کے آرڈرز کی وجہ سے کچھ مشکلات کے باوجود، قنطاس کی چیف ایگزیکٹیو افسر ونیسا ہڈسن، جنہوں گذشتہ خزاں میں عہدہ سنبھالا، نے ستمبر میں لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے ہینگر میں فضائی کمپنی کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ ’آسٹریلوی عوام کی براہِ راست پرواز کرنے کی خواہش‘ کا مظہر ہے۔

مستقبل میں طویل فاصلے کی پروازوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ’دنیا کو دیکھنے کا آسٹریلوی عوام کو ایک شاندار موقع فراہم کریں گی۔ خاص طور پر اے 350 طیارے پر۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ عمل فاصلے کی رکاوٹ کو ماضی کا حصہ بنا دے گا۔ یہ ہمیں سڈنی اور میلبرن سے سیدھا نیویارک اور لندن تک پرواز کرنے کے قابل بنائے گا۔‘

ونیسا ہڈسن نے یہ بھی کہا کہ قنطاس کی موجودہ 17 گھنٹے طویل پروازیں، جو پرتھ سے یورپ تک جاتی ہیں ’مسلسل اچھی کارکردگی دکھا رہی ہیں جس سے ہمیں پروجیکٹ سن رائز کے معاملے میں مزید اعتماد حاصل ہو رہا ہے۔‘

قنطاس کے اگلے ترقیاتی مرحلے کا ایک حصہ یہ دیکھنا ہے کہ انتہائی طویل پروازوں کے دوران ہونے والی تھکاوٹ کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ اس میں مختلف روشنیوں کا استعمال شامل ہوگا تاکہ دن کے مختلف اوقات کی نقل کی جا سکے اور ایک ’آرام کرنے کا زون‘ متعارف کروایا جائے گا جس میں نیلی روشنیوں کے ساتھ دھیرے دھیرے حرکت کرنے والے بادل، چاندنی اور پانی کے عکس جیسے مناظر شامل ہوں گے۔

ہڈسن نے لاس اینجلس ایئر پورٹ پر ہونے والی تقریب میں کہا: ’ہم چارلز پرکنز (ریسرچ) سینٹر سڈنی کے ساتھ مل کر طویل فاصلے کی اگلی پرواز کے تجربے کو از سر نو تصور کرنے پر کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم جسم کی سرکیڈین ردھم (سونے جاگنے کے دورانیے اور روشنی کے صحت پر اثرات‘ کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ روشنی، کھانے اور آرام کے ذریعے مسافروں کو کیسے تیار کیا جا سکتا ہے؟ ہم آنے والے ہفتوں میں کثرت سے سفر کرنے والے مسافروں کے ساتھ کام کریں گے تاکہ اس پر مزید تحقیق کر سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


پروجیکٹ سن رائز کے بیڑے میں شامل 12 نئے ایئربس اے 350 طیاروں 238 مسافروں کی گنجائش ہو گی۔ ان طیاروں کے کیبن کشادہ اور ان کا ڈیزائن انسانی جسم کے ساتھ ہم آہنگ ہو گا۔ فرسٹ کلاس سوئٹس کے مسافروں کے لیے ایک اضافی وسیع مستقل بیڈ، آرام کے لیے الگ کرسی، ذاتی الماری، 32 انچ کا ٹی وی، اور دو افراد کے لیے کھانے یا کام کرنے کی میز جیسی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

طیارے میں 40 پریمیم اکانومی سیٹیں اور 140 مسافروں کی گنجائش والے اکانومی کیبن بھی شامل ہوں گے۔

فی الحال سنگاپور ایئرلائنز دنیا کی بغیر رکے طویل ترین طویل تجارتی پرواز کے اعزاز کی مالک ہے، جو سنگاپور سے نیویارک کے جے ایف کے ایئرپورٹ تک چلتی ہے اور 18 سے 19 گھنٹے تک کا وقت لیتی ہے۔ قنطاس کا پروجیکٹ سن رائز اس اعزاز کو پیچھے چھوڑنے کی امید رکھتا ہے، جس کی پرواز کا وقت 19 سے کچھ زیادہ گھنٹے کے قریب ہوگا۔

یہ ایئرلائن اس وقت سنگاپور کے راستے ایک سٹاپ کے ساتھ پرواز چلاتی ہے، لیکن پروجیکٹ سن رائز کی پروازیں دنیا کی سب سے طویل فضائی رابطہ بن جائیں گی، جس میں لندن سے سڈنی کے سفر کو جو 10573 میل پر محیط ہے’طویل فاصلے کے سفر کی آخری سرحد‘ قرار دیا گیا ہے۔

قنطاس ابتدائی طور پر سڈنی سے لندن اور نیویارک کے لیے بوئنگ 777 ایکس استعمال کرنے پر غور کر رہا تھی لیکن اب اس نے خاص طور پر تیار کردہ ایئربس اے 350-1000 جیٹ طیاروں کا آرڈر دے دیا ہے۔

اصل منصوبہ یہ تھا کہ یہ انتہائی طویل فاصلے کی پروازیں 2023 کے آغاز میں شروع ہوں گی لیکن کووڈ 19 وبا کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل نہیں ہو سکا۔

اس کے بعد یہ منصوبہ دوبارہ اس وقت تاخیر کا شکار ہوا جب منتظم ادارے کی ہدائت پر ایئربس کا ایندھن کا ٹینک دوبارہ تیار کرنا پڑا جس کی وجہ سے منصوبے کی نقاب کشائی کی تاریخ 2026 میں چلی گئی۔ اب یہ تقریب جو اس منصوبے کے اعلان کے تقریباً ایک دہائی بعد ہوگی۔

پراجیکٹ سن رائز کا نام دوسری جنگ عظیم کے دوران قنطاس ایئرلائن کی ’ڈبل سن رائز‘ پروازوں سے متاثر ہو کر رکھا گیا۔ جو اتنے طویل عرصے تک فضا میں رہتی تھیں کہ دو مرتبہ سورج طلوع ہوتے دیکھتی تھیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی