وہ افغانستان کے ایک دیہی علاقے میں دائی کا کام کرتی ہیں۔ ان کی عمر 25 سال ہے اور خود ان کے اپنے اندازے کے مطابق اب تک وہ ایک ہزار سے زیادہ بچوں کو دنیا میں لانے میں مدد کر چکی ہیں۔ لیکن جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے، رعنا (فرضی نام) نے شدید مشکلات کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔
پہلے ان کے والد کرونا وائرس سے بیمار پڑے، جس سے رعنا کو پورے خاندان کا بوجھ اٹھانا پڑ گیا۔ پھر مقامی طالبان کمانڈروں نے حکم جاری کر دیا کہ وہ بغیر محرم کے گھر سے باہر نہ نکلا کریں، جیسے والد یا بھائی کے ہمراہ۔ افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات نے رعنا کا کام اور ان کے خاندان کی فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
رعنا کی کہانی گذشتہ گرمیوں میں کابل کی حکومت کے اچانک ڈھے جانے کے بعد پڑنے والے خطرناک اثرات ناپنے کا ایک پیمانہ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شدید ضرورت مند افغانوں کو مدد پہنچانا کس قدر مشکل ہو گیا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان مزید تنہا رہ گیا ہے۔ بہت سی امدادی تنظیموں نے عملے میں کمی کی ہے یا انہیں مکمل طور پر ملک سے نکال لیا ہے۔ ابھی تک کسی ایک ملک نے بھی افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ مغربی ملکوں نے افغانستان کے فنڈز منجمد کر رکھے ہیں۔ وہ اس بات پر برہم ہیں کہ طالبان 12 سال سے بڑی عمر کی لڑکیوں کو سکول نہیں جانے دے رہے اور افغانستان کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو طاقت کی اعلیٰ سطحوں سے دور رکھا جا رہا ہے۔
امریکہ کی خصوصی ایلچی برائے افغان خواتین رینا امیری نے پچھلے ہفتے ایک بریفنگ کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم افغانستان میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کی مستقل منفی سمت دیکھ کر پریشان ہیں۔ اس بات پر اعتبار گھٹتا جا رہا ہے کہ طالبان اس پالیسی میں کوئی تبدیلی لے کر آئیں گے۔‘
افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال ضرور بہتر ہوئی ہے، مگر معیشت زمیں بوس ہو گئی ہے۔ بھوک بڑھ رہی ہے اور جن کے پاس وسائل یا ہنر ہے، وہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رعنا کا کام اتنی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ نوجوان افغان عورتیں حمل کی حالت میں بھوک اور ناقص غذائیت کا شکار ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ساس کے انگوٹھے تلے زندگی گزارتی ہیں جو انہیں نیچا دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں اور خاوند جو انہیں بچے پیدا کرنے کی مشین سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔
رعنا نے دی انڈپینڈنٹ کو ایک بیان میں بتایا کہ انہیں اکثر نوعمر حاملہ لڑکیوں میں پیچیدہ زچگیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، وہ لڑکیاں جن کی عمریں 16 یا 17 سال برس ہوتی ہیں اور وہ دوسرے یا تیسرے بچے سے حاملہ ہوتی ہیں۔ وہ بزرگوں کو یہ بات سمجھا نہیں پاتیں کہ بچوں کو بچے پیدا کرنے دینا کتنا خطرناک ہے۔ وہ اکثر اپنی بات میں اسلامی حوالے بھی پیش کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’وہ نہیں جانتے کہ عورتوں اور بچوں کے بھی حقوق ہیں۔ اس لیے میں نے محسوس کیا کہ انہیں مذہب کے نقطۂ نظر سے صحت کے بارے میں وہ باتیں بتاؤں جو مجھے معلوم ہیں۔‘
افغانستان میں دائیاں اکثر وہ پہلا اور شاید آخری طبی عملہ ہوتا ہے جس تک افغان عورتوں کی رسائی ہوتی ہے۔
افغان خواتین کو طبی سہولیات فراہم کرنے والی بین الاقوامی تنظیم فلاحی تنظیم انٹرسوس کی ترجمان کرسٹی کیمرون کہتی ہیں، ’یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمارے طبی عملے کو افغانستان کے دیہی علاقوں میں جانے کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ وہاں کی کسی بھی عورت کے لیے واحد طبی دیکھ بھال ہے جس تک اس کی رسائی ہو سکتی ہے۔‘
کرسٹی نے ایک انٹرویو میں مزید بتایا: ’ہم ملک کے دور افتادہ ترین علاقوں میں کام کرتے ہیں اور اگر ہماری دائیاں وہاں تک نہ پہنچ پائیں تو ہمیں ان عورتوں کے بارے میں کچھ نہ پتہ چلے۔‘
طالبان کے کٹر قوانین کے باوجود بھی رعنا کا شعبہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ ملکی قوانین کے تحت انہیں دائیوں کو کام کرنے کی اجازت دیتی چاہیے، مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان معاشرے کے بعض حصوں میں ایک ناگوار عورت دشمن فضا پیدا ہو گئی ہے۔ مرد بعض اوقات زبردستی یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ خاتون کے ساتھ محرم ہو۔
امیری کہتی ہیں، ’ملکی سطح پر ابھی تک محرم کے اصول کا نفاذ نہیں ہوا، لیکن اس پر زیادہ سے زیادہ عمل ہوتا جا رہا ہے اور اس سے رکاوٹیں کھڑی ہو رہی ہیں۔ طالبان نے پورے معاشرے میں مردوں کی جانب سے دھونس کے کلچر کو فروغ دے دیا ہے۔‘
جب مقامی حکام نے رعنا کو بغیر محرم سفر سے منع کر دیا تو وہ مصیبت میں پڑ گئیں۔ ان کے سبھی بھائی یونیورسٹی کے طالب علم تھے، اور ان کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔ ان کے والد کو کرونا سے شدید بیمار ہوئے تھے اور وہ مرتے مرتے بچے تھے اور اس لیے نہ تو وہ خود کام پر جا سکتے تھے اور نہ رعنا کے ساتھ بطور محرم۔
بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے رعنا کا کیس لڑا اور مقامی حکام سے درخواست کی کہ انہیں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی مدد کی اجازت دی جائے۔ آخر کار وہ مان گئے۔ اب رعنا اپنا اہم کام سرانجام دے رہی ہیں۔
گذشتہ ہفتے، طالبان نے کابل میں ایک اجلاس منعقد کیا جس کے بارے میں بہتوں کو امید تھی کہ اس میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی صحت جیسے معاملوں پر طالبان اپنے فیصلے واپس لیں گے۔ افغانستان کے 34 صوبوں اور 421 اضلاع سے آئے ہوئے علما اور مقامی عمائدین کا جاری اجلاس شائد مغربی دباؤ میں ایک متحد محاذ پیش کرنے کی کوشش بھی ہے۔ اوروں کا کہنا ہے کہ اجلاس کا مقصد مقامی حکام کو خودمختار فیصلے کرنے کی بجائے قومی قوانین ماننے پر مجبور کرنا ہے۔
اجلاس کے شروع ہوتے ہی کابل میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں، جو مبینہ طور پر طالبان کی حکمرانی کے خلاف باغی جنگجوؤں نے کی۔ یہ آنے والے دنوں میں بحران کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
اس اجلاس کا نتیجہ جو بھی ہو، افغانستان میں سٹیٹس کو کام نہیں کر رہا اور ملک تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے۔
افغانستان کی 3.9 کروڑ آبادی میں سے 60 فیصد تک کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور نصف آبادی بھوک کا شکار ہے۔
بےروزگاری عام ہے اور عالمی منڈی میں خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، جبکہ بین الاقوامی توجہ یوکرین میں جنگ کی جانب چلی گئی ہے۔
افغانستان میں کچھ بدلنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ ملک مزید ڈرامائی اور اس سے زیادہ تاریک موڑ پر پہنچ جائے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔
© The Independent