جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں اشیائے ضرورت کے سستے سٹور کے ملازم خالی شیلف کو دوبارہ خوراک کے ڈبوں سے بھر رہے ہیں۔
وہ تیزی سے کام کرنے میں مصروف ہیں کیوں کہ دفاتر میں دن کے کھانے کے وقفے کے موقع پر ملازمین کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انہی ملازمین سے ایک 65 سالہ پارک می ون بھی ہیں جو ایک دفتر میں کام کرتی ہیں۔
انہوں نے کبھی سٹور سے اپنا لنچ نہیں خریدا تھا لیکن حال میں ان کے پسندیدہ لنچ بوفے کی قیمت میں 10 سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
اب اس کی قیمت 900 ون (جنوبی کوریا کی کرنسی کا نام) یعنی سات ڈالر ہو گئی ہے۔ ایسا افراط زر کی وجہ سے ہوا جو 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
سہولت سٹور سے خریدے گئے رائس رول لنچ کے بارے میں پارک کا کہنا تھا کہ ’قیمتیں بڑھنے کے بعد میں نے سستے سٹورز پر جانا شروع کر دیا ہے، جہاں میرے خیال میں قیمتیں زیادہ مناسب ہیں جب کہ کھانے کا ذائقہ بھی اچھا ہے لہٰذا اب میں اکثر ہفتے میں دو سے تین بار یہاں آتی ہوں۔‘
جنوبی کوریا کے ان سٹورز پر فوری تیار ہونے والے نوڈلز، سینڈوچز اور کھانے کے باکسز کی قیمت پانچ ڈالر سے کم ہے۔
یہ سٹور تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں کیوں کہ پارک جیسے تنخواہ دار لوگ اخراجات میں کمی چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے زرعی ونگ کے مطابق عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں گذشتہ ماہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں 23 فیصد اضافہ ہوا۔
یوکرین میں جنگ نے وہاں اور روس سے اناج کی سپلائی کو متاثر کیا ہے جس سے توانائی اور کھاد کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
جنوبی کوریا کی سہولت شاپ چین جی ایس 25 پر ایک سال پہلے کے مقابلے میں جنوری اور مئی میں فوری تیار ہونے والے کھانوں کی فروخت میں 30 سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے جی ایس 25 نے دفتر میں کام کرنے ملازمین کے لیے کھانے کی نئی سبسکرپشن سروس شروع کی ہے جس میں کھانا رعائتی نرخوں پر براہ راست دفاتر تک پہنچایا جاتا ہے۔
جی ایس 25 کے حریف سہولت سٹور سی یو الیون پر بھی سستے کھانے کی طلب میں اسی طرح کا اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ ای مارٹ 24 نامی سہولت سٹور میں بہت سے آفس بلاکس والے علاقوں میں لنچ باکس کی فروخت میں 50 فیصد دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ فائدہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب جنوبی کوریا میں ریستوران کے پکوان کی قیمتوں میں گذشتہ ماہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں 7.4 فیصد اضافہ ہوا جو حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 24 سالوں میں قیمتوں میں اضافے کی تیز ترین شرح ہے۔
کوریا کی کنزیمر ایجنسی ڈیٹا کے مطابق ریستوران پر پسندیدہ کھانوں مثال کے طور پر’گالبی ٹینگ‘ یا چاول کے ساتھ بڑے گوشت کے سوپ کی قیمت میں 12.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لی سانگ جائی وسطی سیئول میں گالبی ٹینگ ریستوران چلاتے ہیں۔ وہ پہلے اس سال کھانے کی قیمت دو بار بڑھا چکے ہیں اور اب سوپ کا پیالہ 7.79 ڈالر کی بجائے 9.35 ڈالر کا ہے۔
جائی کا کہنا ہے ’میں اپنے منافعے کا کچھ حصہ چھوڑ رہا ہوں کیوں کہ مجھے ان دنوں آفس ورکرز کے کم بجٹ پر بھی غور کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے میں نے ان کے ساتھ درد بانٹنے کے لیے قیمتیں تھوڑی سے بڑھائی ہیں۔‘
جنوبی کوریا میں دوپہر کا کھانا دفتری ملازمین کے لیے ایک سماجی سرگرمی ہوتی ہے۔
وہ دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ سماجی رابطے کے لیے مختص ایک گھنٹے سے زیادہ دیر کے لیے ریستورانوں کا رخ کرتے ہیں۔
لیکن کھانے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کھانے کے سہولت والے سٹورز پر انحصار اور دوپہر کے وقت اکیلے ہی کھانا عام سی بات ہوتی جا رہی ہے۔
اگرچہ بہت سے چھوٹے ریستوران کووڈ کی وجہ سے مہینوں جاری رہنے والی عائد پابندیوں کے خاتمے کے بعد رات کے کھانے کے وقت گاہکوں کی واپسی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ماہرین معیشت نے خبردار کیا ہے کہ صارفین کے لیے قیمتوں پر زیادہ عرصے تک جاری رہنے والا دباؤ کا اثر اشیا کی فروخت پر پڑے گا۔
حقیقی قوت خرید افراط زر کے سخت دباؤ سے متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ مالی وسائل کے استعمال میں نئے طریقوں کی تلاش جاری رکھیں گے۔