پاکستانی حکام کے مطابق پیر کو پنجاب میں باراتیوں کی ایک کشتی دریائے سندھ میں الٹنے سے 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے، جبکہ اس حادثے میں 30 افراد لاپتہ ہیں۔
سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ کشتی میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے جن کی تعداد 100 سے زیادہ بتائی جا رہی ہے اور وہ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ ضلع صادق آباد میں حادثے پیش آ گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غوطہ خوروں نے 90 کے لگ بھگ لوگوں کو ڈوبنے سے بچا لیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز حکام کی جانب سے مزید بتایا گیا ہے کہ کشتی میں زیادہ تر خواتین اور بچے سوار تھے۔ کشتی میں سوار تمام افراد کا تعلق ایک ہی قبیلے سے تھا۔
سرکاری عہدے دار اسلم تسلیم نے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ہم اب تک 20 لاشیں نکال چکے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مزید 30 کے قریب افراد لاپتہ ہیں۔
سرکاری عہدے دار نے کہا کہ ’ہمیں یقین نہیں ہے کہ کشتی پر حقیقت میں کتنے لوگ سوار تھے۔ ہم صرف خاندان کے افراد کے بیانات کی بنیاد پر اندازہ لگا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ریسکیو سروس کے تقریباً 35 غوطہ خوروں نے دریا میں موجود مزید افراد کی تلاش اور ان کی جان بچانے کے لیے کیے گئے آپریشن میں حصہ لیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس افسر محمد حماد کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ ڈوبنے والوں میں زیادہ تر خواتین تھیں کیوں کہ اکثر مرد تیرنا جانتے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں دیہاتی اکثر سفر کے لیے اب بھی کشتیاں استعمال کرتے ہیں کیوں کہ گاڑیوں میں سوار ہو کر خستہ حال سڑکوں پر سفر کرنا مہنگا پڑتا ہے جو اکثر ان کے گھروں سے دور ہوتی ہیں۔