پنجاب میں گذشتہ دنوں جب پاکستان تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب میں 20 نشستوں میں سے 15 پر کامیابی حاصل کیں تو ایسا لگنے لگا تھا کہ وزارت اعلیٰ مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔
مگر پھر وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے ایک روز قبل کچھ ایسی ملاقاتوں کی بازگشت سنائی دینے لگی کہ جیسے پنجاب میں کچھ اور ہی ہونے جار رہا ہے، اور اس بات کا اشارہ عمران خان نے خود بھی اپنے ایک خطاب میں کر دیا تھا۔
یہ ملاقاتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے درمیان ہو رہی تھیں جو پنجاب اسمبلی میں ہونے والے اجلاس کے دوران بھی جاری رہیں۔
ایک طرف ایوان میں ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو دوسری طرف آصف زرداری اور چوہدری شجاعت کے درمیان چوتھی ملاقات۔
اور پھر ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے سے قبل ہی ایک بیان سامنے آیا: ’میں بھی ہار گیا اور عمران خان بھی۔‘
یہ بیان تھا پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الہی کے صاحبزادے مونس الہیٰ کا۔
اس بیان کا پس منظر وہ خط تھا جو چوہدری شجاعت حسین نے اپنی جماعت کے اراکینِ اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو لکھا تھا۔
دوست محمد مزاری نے اس خط کو ایوان میں پڑھ کر سنایا اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ اس خط کی روشنی میں چوہدری پرویز الہیٰ کو ملنے والے مسلم لیگ ق کے تمام دس ووٹ مسترد کرتے ہیں۔
اسی رات حمزہ شہباز شریف دوبارہ سے وزیراعلیٰ تو بن گئے اور اگلے ہی روز انہوں نے پھر سے حلف بھی اٹھا لیا مگر مخالف پارٹی سپریم کورٹ پہنچ گئی اور وہاں سے حکم صادر ہوا ہے کہ حمزہ شہباز پیر تک ایک ٹرسٹی کے طور پر وزیر اعلیٰ رہیں گے اور کوئی بڑا فیصلہ نہیں لے پائیں گے۔
ایک طرف عمران خان شور مچاتے رہے تو دوسری طرف مسلم لیگ ق میں ’دراڑ‘ نظر آنے لگی، مگر اس سب میں ایک ٹویٹ آئی: ’ایک زرداری سب پر بھاری۔‘