اس سال نیلسن منڈیلا کے عالمی دن پر (جو منڈیلا کی سالگرہ 18 جولائی کے روز منایا گیا) تاریخی تقریریں کی گئیں جن میں ہماری جمہوریت پر ایسے حملے کے بارے میں خبردار کیا گیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تاہم ان میں کسی چیز کی کمی محسوس ہو رہی تھی، کسی بڑی چیز کی۔
محض چند ہفتے بعد بھارت کی آزادی کے 75 سال مکمل ہو جائیں گے۔ برطانوی ہندوستان نے آزادی کی باتوں اور سامراج کی حقیقت کے درمیان موجود خوفناک خلیج کا سامنا کیا۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں مثال کے طور پر گاندھی، نہرو، امبیدکر اور آزاد کی قیادت میں بھارت نے مختلف نظریات کے مالک لوگوں اور سیکولر جمہوریت رکھنے والا ملک بننے کا سفر شروع کیا۔ لیکن اب سے 75 سال بعد بھارت کیسا ہو گا؟
یوم منڈیلا ہمارا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ ہم نسل پرستی کے خاتمے اور امن کے فروغ کے لیے نیلسن منڈیلا اور دنیا کی کوششوں کو یاد کریں اور مجھے وہ سب کچھ یاد ہے جو بھارت نے جنوبی افریقہ کے لیے کیا۔
جب مغرب نے دہائیوں تک میرے ملک کے معاملے میں اپنی آنکھیں بند رکھیں، بھارت ہمارے ساتھ کھڑا ہوا۔ ہماری پشت پناہی کی اور ہمارے لیے آواز اٹھائی۔
میرے دادا نیلسن منڈیلا کی شکل میں ہمیں ہمارا گاندھی مل گیا۔ اصل میں مہاتما گاندھی کی سوچ کی ان کے جنوبی افریقہ میں تجربے سے تشکیل ہوئی۔ ان کے ضمیر کو اس نسل پرستی اور بالادستی نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا جو کبھی میرے ملک میں موجود تھی۔
منڈیلا نے خود ایک بار جنوبی افریقہ کی ہندو برادری کی مدد سے 1991 میں ’افریقہ میں پہلا جمہوری سیاسی ادارہ‘ بنانے میں گاندھی کے کردار کی تعریف کی۔ درحقیقت منڈیلا اور افریقی نیشنل کانگریس میں بہت سے لوگ نسل پرست حکومت کی طرف سے ملک کی بڑی جنوبی ایشیائی آبادی کو ملک بدر کرنے کی مختلف کوششوں کے سخت مخالف تھے۔
لیکن مجھے ایک خدشہ ہے۔ میں فکرمند ہوں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جو عالمی جنوب کے لیے طویل عرصے سے ایک امید ہے، تیزی سے وہ کچھ بننے کے خطرے سے دوچار ہوتی جا ری ہے جس کا اس نے کبھی بے لوث انداز میں سامنا کیا تھا۔
مسمار مکانات، منظم انداز میں کیا جانے والا امتیازی سلوک اور پولیس کی مدد اور حوصلہ افزائی سے ہجوم کے ہاتھوں ہونے والا تشدد۔ یہاں تک کہ شادیوں پر لگائی جانے والی پابندی۔ اگر یہ 75 سال پہلے کے جنوبی افریقہ کی طرح لگتا ہے تو آپ غلط نہیں ہوں گے۔ لیکن میں آج کے بھارت کی بات کر رہی ہوں جہاں اسلامو فوبیا کو اس مقام تک مرکزی دھارے میں لایا گیا ہے اور منظم شکل دی گئی ہے کہ بھارت ایسے نظام کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے جس میں نسل پرستی جیسی عدم مساوات ہوتی ہے۔
صرف پچھلے ہفتے ہی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آخری مسلمان قانون ساز نے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد حکمران جماعت میں ایک بھی مسلمان رکن پارلیمنٹ نہیں بچا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت میں تقریباً 20 کروڑ مسلمان ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادیوں میں سے ایک ہیں اور اب ان سب میں بنیادی نمائندگی کا بھی فقدان ہے۔ بہت سے مسیحیوں کو بھی بڑی سرگرمی کے ساتھ امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
ابھی حال ہی میں بی جے پی کے رہنماؤں نے ملک کے اہم سفارتی تعلقات کو خطرے میں ڈالتے ہوئے پیغمبر اسلام کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ پڑوسی ممالک جیسے کہ ایران، قطر اور کویت کی طرف سے معاشی میدان میں جوابی کارروائی کے بعد بھارت نے تاخیر کے ساتھ قدم اٹھایا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوؤں کے خلاف بھی تعصب یا تشدد کے واقعات نہیں ہوئے۔ امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی کی ایک حالیہ رپورٹ میں سوشل میڈیا پر ہندو فوبیا میں اضافے کا ذکر کیا گیا اور اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر ٹی ایس ترومورتی نے حال ہی میں ’مذہب فوبیا کی ہم عصر اقسام، خاص طور پر ہندو، بدھ مت اور سکھ مخالف جذبات ابھرنے‘ کی مذمت کی۔
جیسا کہ بھارت بلکہ فرانس اور امریکہ میں بھی دیکھا گیا ہے، اسلامو فوبیا پر مبنی خیالات اب معاشرے میں محدود نہیں رہے۔ وہ معمول اور مرکزی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں اور دنیا بھر کی بڑی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے بیانیے کا تیزی سے حصہ بن گئے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے اجتماعی بدنامی کی وجہ بننے والے صریح اسلامو فوبیا پر مبنی جذبات نفرت پر مبنی جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سبب بن چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسا لگتا ہے کہ عالمی برادری یہ بھول گئی ہے کہ امتیازی سلوک کی چھوٹے چھوٹے واقعات بالآخر دنیا کو بدلنے والے واقعات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اور بڑے معاشی، جغرافیائی و سیاسی عدم استحکام کے دور میں اس طرح کی کارروائیوں کو نظر انداز کرنا بہت برے نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
سیاسی اور معاشی مداخلت سے ہٹ کر ہمیں اخلاقی قیادت کی طاقت بھی درکار ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے گاندھی اور ڈیسمنڈ ٹوٹو اور بڑی مذہبی شخصیات کے معاملے میں دیکھا جنہوں نے ایسے قیام امن کے عمل کا آغاز کیا جس کے اثرات نسلوں پر مرتب ہوئے۔ یہ کام شاید خود مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ہونا چاہیے۔
حال ہی میں سعودی عرب، جو اسلام کے مقدس ترین مقامات واقع ہیں، نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی غیر سرکاری تنظیم مسلم ورلڈ لیگ کے سربراہ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم آل عیسیٰ کی قیادت میں بین المذاہب سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی۔
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں اور ہندوؤں سمیت دنیا بھر کے مذہبی رہنماؤں کو مشترکہ اقدار پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے مدعو کر کے سعودی عرب تعاون کے لیے زبردست کال دینے میں کامیاب رہا۔ بھارت کو اس کوشش میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا اور وہ ان کوششوں کو اپنا کر ان کا دائرہ پھیلا سکتا تھا۔
دراصل میرے دادا کو ناانصافی کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی ہندو نظریات کی طاقت پر بہت بھروسہ تھا۔ انہوں نے نسل پرستی کے خلاف اپنی مزاحمت میں ہندو روایات سے کام لیا۔ خاص طور پر اس وقت دیوالی منا کر جب وہ رابن جزیرے پر قائم جیل میں تھے۔
انہوں نے خلاف معمول جاتے ہوئے دیوالی منائی۔ 1992 میں جب ہندومت کا پرچار کرنے والے ایک شخص نے منڈیلا کا موازنہ جنوبی افریقہ کے دیوتا رام کے طور پر کیا تو انہوں نے اس عمل کو باوقار انداز میں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
مزید برآں منڈیلا نے بطور ثبوت اکثر استعمار کے خلاف ہندوستان کے جرات مندانہ موقف کی طرف اشارہ کیا کہ ہماری جدوجہد کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے پوری دنیا میں دوست اور اتحادی موجود ہیں اور یہ کہ ہمارا مقصد واقعی عالمگیر ہے۔
انہوں نے ہمارے ملک کو بھارت کی طرح مختلف نظریات کی حامل جمہوریت بنانے کے لیے کام کیا جہاں تمام مذاہب اور پس منظر کے لوگوں کے لیے دلچسپی اور آواز ہو۔ لہذا جب ہم منڈیلا ڈے پر غور کرتے ہیں تو مجھے امید ہے کہ بھارتی شہریوں کو یہ تاریخ کو یاد ہو گی اور وہ پوچھیں گے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ ہمارے ملک نے بدترین نسل پرستی سے ایک نامکمل جمہوریت کی طرف سفر کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ بھارت اس کے برعکس راستہ اختیار کر رہا ہے۔
جب ہندوستان نے آزادی کی جنگ لڑی تو اس وقت دنیا میں کہیں بھی حقیقی جمہوریت کی مثالیں بہت کم تھیں۔ لیکن 75 سال پہلے گھناؤنی مذہبی تفریق، تلخ نسلی گروہ بندی اور سفاک سامراج کے دور میں ہندوستان نے بہتر انتخاب کیا۔ اور دنیا اس کے لیے بہتر تھی۔ تو آج میں پوچھتی ہوں کہ بھارت اب کس کا انتخاب کرے گا؟
انڈیلیکا منڈیلا سماجی کارکن اور جنوبی افریقہ میں دیہی ترقی کے لیے سرگرم تنظیم تھمبے کیل منڈیلا فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔
© The Independent