امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد برطانیہ بھر میں ہزاروں افراد نے نسل پرستی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا۔
'بلیک لائیوز میٹر'تحریک کے تحت لندن میں پارلیمنٹ سکوائر کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے بینر اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر 'نسل پرستی وبا ہے'، 'خاموشی تشدد کے مترادف ہے' اور 'تبدیلی کا وقت کل تھا' کے نعرے درج تھے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہفتے کو مظاہرین نے کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے سماجی دوری کے لازم قرار دیے گئے ضابطے کو مکمل طورپر نظر انداز کرتے ہوئے وسطی لندن کی شاہراہ وائیٹ ہال اور نائن ایلمز میں امریکی سفارت خانے کی جانے والی سڑک پر مارچ کیا۔ اس دوران گھڑ سوار پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
مظاہرہ شروع میں پرامن رہا تاہم بعض افراد نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی ڈاؤننگ سٹریٹ میں واقع سرکاری رہائش گاہ کے قریب پولیس پر بوتلیں پھینکیں جس پر پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ جھڑپ کے دوران 10 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ ایک پولیس افسر گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔مظاہرین کا ایک گروپ امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے پتلے پرپل پڑا اور اُسے نذر آتش کر دیا۔ لندن پولیس کے مطابق اب تک 14 مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب کہ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظاہرے میں شریک 39 سالہ سکول ٹیچر عائشہ پیمبرٹن کا کہنا تھا کہ وہ سیاہ فام افراد کے حق کے لیے نکلیں جنہیں سال ہا سال سے بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب تبدیلی کا وقت آ گیا ہے۔
مظاہرے میں شریک آئی ٹی سپیشلسٹ 32 سالہ کیناڈیوڈ نے کہا کہ برطانیہ بھی نسل پرستی کا مجرم ہے۔ آپ جو کچھ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں انہیں بنانے میں سیاہ فاموں کا کردار ہے۔
ہفتے کو ہونے والے مظاہروں سے پولیس کے لسانی اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر عالمی غم وغصے کا اظہار ہوتا ہے۔ برطانیہ سمیت یورپ اور ایشیا کے دوسرے شہروں میں بھی اس کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔ لوگوں نے نعرے لگائے کہ انصاف نہیں ہوگا تو امن بھی نہیں ہوگا۔ پولیس کی نسلی پرستی کے خلاف بھی نعرے بازی کی گئی۔