پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں دو جولائی سے شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ دیگر اضلاع تک پھیل گیا ہے اور ہفتے کو پونچھ ڈویژن کے تینوں اضلاع کے علاوہ ضلع نیلم، میرپور اور کوٹلی کے کئی علاقوں میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال رہی۔
یہ احتجاج بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین میں ممکنہ طور پر 15ویں ترمیم کے خلاف ہو رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے گروہوں کو خدشہ ہے کہ اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے خطے کو 2018 میں دیے گئے اختیارات واپس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ سلسلہ یکم جولائی کو وزارت امور کشمیر کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف سیکرٹری کو لکھے گئے اس خط کے بعد شروع ہوا جس میں آئین میں مجوزہ ترمیم کے لیے کشمیر حکومت سے تین ممبران کی نامزدگی طلب کی گئی تھی۔
ضلع پونچھ سے شروع ہونے والے اس احتجاج کے ابتدائی دنوں میں پولیس کی جانب سے سخت کریک ڈاون کے بعد پولیس اور مظاہرین کے درمیان کئی جھڑپوں میں پولیس اہلکاروں اور مظاہرین سمیت درجنوں لوگ زخمی ہوئے۔
مظاہرین کے خلاف اب تک پولیس کی جانب سے درج کیے گئے نو مقدمات سامنے آئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی، کار سرکار میں مداخلت اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کی دفعات کے تحت درج ان مقدمات میں 400 سے زائد سیاسی کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں سے 22 کے لگ بھگ لوگوں کی گرفتاری کی تصدیق ہوئی ہے۔
گرفتار کارکنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق قوم پرست کشمیری جماعتوں سے ہے۔ ان کارکنوں کی رہائی کے لیے پونچھ کے سات الگ الگ مقامات پر کئی روز سے دھرنے جاری ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے راولاکوٹ پولیس سٹیشن میں گرفتار مظاہرین سے ملاقات کی اور ان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ وزارت امور کشمیر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آئین میں کس طرح کی تبدیلیاں چاہتی ہے تاہم اس خط کے فوراً بعد سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا تیار کردہ آئینی مسودہ بھی دوبارہ سے گردش کرنے لگا، جو 2020 میں تیار کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ کے اختیارات کی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے ’ریاست‘ کے لفظ کو عبوری آئین سے نکالنے کی تجویز دی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسی کسی آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے جس سے خطے کی خصوصی شناخت میں رد و بدل یا انتظامی اور مالیاتی اختیارات میں کمی کا شائبہ ہو۔
تاہم گرفتار مظاہرین کے حوالے سے حکومت شروع دن سے سخت گیر موقف کی حامل ہے۔ وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر عرفان پونچھ میں احتجاجی تحریک کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی سے جوڑ چکے ہیں۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مقامی قیادت کے موقف میں تبدیلی اس وقت آئی جب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی حالانکہ پی ٹی آئی 2021 کے انتخابات سے قبل اور بعد میں آزاد جموں و کشمیر کونسل کے اختیارات کی بحالی کی حامی رہی ہے اور حکومت کے ابتدائی دنوں میں اس معاملے میں کافی سرگرم رہی ہے۔
15 ویں ترمیم کا تنازع کیا ہے؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین 1974 میں 2018 میں ہونے والی 13 ویں ترمیم کے نتیجے میں ٹیکسوں کی وصولی سمیت کئی ایسے اختیارات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو منتقل ہوئے جو پہلے وزارت امور کشمیر کے تحت قائم ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ نامی ادارہ استعمال کرتا تھا۔
13 ویں ترمیم کے نتیجے میں بیشتر انتظامی، مالیاتی اور قانون سازی کے اختیارات اسلام آباد سے مظفرآباد منتقلی کے بعد ان اختیارات کی واپس اسلام آباد منتقلی کے لیے اب تک تین سے زائد مجوزہ ترمیمی مسودے تیار کیے جا چکے ہیں۔ تاہم اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی مسودہ قانون ساز اسمبلی میں پیش نہیں ہو سکا۔
جون 2020 میں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے اس وقت کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیٹی نے آئین میں مجوزہ ترمیم کا ایک مسودہ تیار کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو ارسال کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود اس مسودے میں عبوری آئین میں موجود لفظ ’ریاست‘ کو ’آزاد جموں و کشمیر‘ سے تبدیل کرنے کے علاوہ اس علاقے میں کشمیر کی خود مختاری کی حامی سیاسی جماعتوں پر بندشیں اور ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی بھی شامل ہیں۔
مسودے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں 12 نشستوں کے اضافے اور ان نشستوں کو بھارت کے زیر انتظام علاقوں جموں، کشمیر اور لداخ میں اس طرح تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے کہ جموں اور کشمیر کے لیے پانچ پانچ جبکہ لداخ کے لیے دو نشستیں مختص ہوں۔ تاہم ان علاقوں کی ’آزادی‘ تک ان نشستوں پر انتخاب نہ کروانے کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد یہ سلسلہ وقتی طور پر رک گیا۔
پاکستان میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ختم ہونے کے بعد، مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت قائم ہونے کے باوجود، حالیہ دنوں میں وزارت امور کشمیر کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف سیکرٹری کو لکھے گئے ایک خط کے بعد سے یہ تنازع ایک بار پھر کھڑا ہو گیا۔
ایک حکومتی عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ وہی پرانا مسودہ ایک مرتبہ پھر مظفرآباد بھیجا گیا ہے تاکہ اس پر مشاورت کے بعد اسے قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا جائے تاہم عہدیدار کے مطابق وزیراعظم تنویر الیاس سمیت کابینہ کے کسی رکن نے اس مسودے سے اتفاق نہیں کیا۔
وفاقی مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر الزمان کائرہ نے گذشتہ دنوں اپنے دورہ مظفرآباد کے دوران پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ابھی تک آئینی ترمیم کے حوالے سے صرف مشاورت کی جا رہی ہے اور کوئی بھی مسودہ قانون حتمی نہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’پیپلز پارٹی صوبوں اور اکائیوں کو اختیارات دینے والی جماعت ہے۔ ہمارے ہوتے ہوئے مظفرآباد سے کوئی مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی منتقلی یا واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ کے قانون سازی کے اختیارات ختم ہونے سے جو ابہام اور مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کا حل نکالنے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔ ان کے بقول: ’وہی مسودہ حتمی ہوگا، جسے یہاں کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گی اور وہ قانون ساز اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی حمایت سے ہی پاس ہو سکے گا۔‘
قمرالزمان کائرہ کی وضاحت اپنی جگہ مگر مظفرآباد اور اسلام آباد کے درمیان جاری خط و کتابت اور گردش کرتے مختلف مجوزہ مسودے کئی خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر حکومتِ پاکستان نے طے کر لیا ہے کہ اس خطے کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانا اور صوبے کا درجہ دینا ہے تو آئیں بیٹھ کر ہمارے ساتھ بات کریں۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ اسلام آباد سے حکم جائے اور ہم اسے من و عن قبول کر لیں۔‘
راجہ فاروق حیدر نے اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کر رکھی ہے اور کہتے ہیں کہ ’انتظامی، مالیاتی اختیارات یا خطے کی خصوصی شناخت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، چاہے اس کے لیے مجھے اپنی جماعت کی حکومت کے خلاف ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘