یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
کیا واقعی شہباز گل پر تشدد ہوا ہے یا عمران خان کو الجھایا جا رہا ہے اور وہ شوق سے الجھتے جا رہے ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے اس دام میں الجھ کر وہ جتنی شجاعت دکھائیں گے اس کا براہ راست فائدہ مسلم لیگ ن کو ہو گا؟
شہباز گل پر تشدد کی جو کہانی عمران خان بیان کر رہے ہیں وہ خوفناک ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس کہانی میں سچائی کتنی ہے؟ معاملہ بد گمانی کا نہیں، مشاہدے کا ہے۔ عمران خان صاحب کے کتنے ہی دعوے تھے وقت نے جنہیں غلط ثابت کر دیا۔ اب ایک نئے دعوے کا اعتبارکیا صرف اس لیے کر لیا جائے کہ راوی عمران خان ہیں؟
مسئلہ مگر یہ ہے کہ دوسری جانب بھی ایسے ہی سوالات کھڑے ہیں؟ زیر حراست تشدد کا یہ پہلا الزام تو نہیں۔ ایسے مظاہر تو ہمارے ہاں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ کون ہے جو دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہماری پولیس تو تشدد کا سوچ بھی نہیں سکتی؟ کیا تشدد اور تذلیل کی کچھ کہانیاں خود حکومتی اتحاد کے اراکین بھی نہیں سناتے؟
اس ملک میں صحافت ہو یا سیاست، کسی کا بھی اب اعتبار نہیں رہا کہ خبر واحد پر یقین کر لیا جائے۔ سیاست یہاں مفادات کو خبر بناتی ہے اور صحافت میں چونکا دینے کی خواہش میں ندرت خیال کو بھی خبر بنا دیا جاتا ہے۔
جب بات نکلتی ہے تو پھر ’جونیئر تجزیہ کار‘ بھی اپنے یو ٹیوب چینلز سمیت آپ کو یوں تفصیل فراہم کرنے آجاتے ہیں جیسے وہ وقوعہ میں شریکِ جرم نہ سہی تو عینی شاہد ضرور تھے۔
دعوے یہ لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے یہ چشم دید گواہ ہوں لیکن بے نیاز یہ اتنے ہیں کہ ریاستی ادارے اشتہارات شائع کر رہے ہوتے ہیں کہ کسی کے پاس شہباز گل صاحب پر کسی بھی قسم کے تشدد کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کیجیے لیکن یہ ثبوت پیش نہیں کرتے۔
یہ کیسی تحقیق ہے جو دعویٰ تو کر دیتی ہے لیکن ثبوت نہیں دیتی؟
یہی سوال عمران خان صاحب سے ہے۔ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس ویڈیو اور تصاویر کی شکل میں ثبوت موجود ہیں تو وہ یہ ثبوت سامنے کیوں نہیں لا رہے؟
پولیس پر اعتبار نہیں تو وہ یہ ثبوت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ یا چیف جسٹس آف پاکستان کو پیش کر سکتے ہیں۔
ان حالات میں، سوال اب یہ ہے کہ جب بزم ناز سے یار الگ الگ خبر لا رہے ہوں اور شواہد دستیاب نہ ہوں یا پیش نہ کیے جا رہے ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ مناسب یہی ہوتا ہے کہ اس صورت میں واقعاتی شہادتوں کو دیکھنا چاہیے۔
آئیے واقعاتی شہادتوں کو ان کی ترتیب کے ساتھ دیکھتے ہیں۔
شہباز گل صاحب گرفتار ہوئے اور ان کے ڈرائیور کی ویڈیو سامنے آئی جس میں اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور وہ تشدد کا شکوہ کر رہا تھا۔ بعد میں ایک اور ویڈیو سامنے آ گئی جو گرفتاری کے بعد کی تھی اور اس میں ان کے کپڑے سلامت تھے۔
چنانچہ سوشل میڈیا پر ان کے ناقدین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ وقوعے کے بعد پہلی ویڈیو میں کپڑے سلامت تھے تو دوسری میں پھٹ کیسے گئے؟ یہ دوسرا وقوعہ کہاں ہوا؟
اخباری اطلاعات کے مطابق شہباز گل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جیل میں ساری رات جگائے رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اڈیالہ جیل تو پنجاب میں ہے اور پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے تو وہاں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ان سے پوچھا جاتا رہا عمران خان کھاتے کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ بھی کوئی راز ہے جو ان سے پوچھا گیا ہو۔ ایک شخص جو وزیر اعظم رہ چکا ہو کیا حکومتی اداروں کو نہیں معلوم وہ کھاتا کیا ہے اور پیتا کیا ہے؟
شہباز گل صاحب نے پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھا جاتا رہا جنرل فیض سے کتنی بار ملے ہو؟ سوال یہ ہے کہ یہ سوال ان سے کوئی کیوں پوچھے گا؟
کیا حکومتی اداروں کو اتنے اہم شخص کے معمولات کا بھی علم نہیں ہو گا اور اس کے لیے وہ شہباز گل سے معلومات طلب کریں گے؟ پھر یہ کہ ایسی بات کر کے شہباز گل کیا ثابت کرنے جا رہے تھے؟
کیا یہ کم و بیش ویسا ہی غیر ذمہ دارانہ رویہ نہ تھا جس نے انہیں یہ دن دکھائے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان کے تازہ ٹویٹ بڑے غور طلب ہیں۔ اس میں وہ اسلام آباد پولیس کا موقف بظاہر تسلیم کر رہے ہیں کہ اس نے شہباز گل پر تشدد نہیں کیا۔
ساتھ وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام میں بڑے پیمانے پر یہ تاثر موجود ہے کہ ایسا بھیانک تشدد کون کر سکتا ہے اوور یہ ہمارے ذہنوں میں بھی ہے، یعنی معاملہ وہی ہے کہ الفاظ کے پردے میں وہ جن سے مخاطب ہیں، سب جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے۔
ایک طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کو دعوت عام دے رہے ہوتے ہیں کہ نیوٹرل نہ رہا جائے بلکہ نواز شریف اور زرداری وغیرہ کے خلاف ان کا ساتھ دیا جائے۔ (یعنی ان کا مسئلہ آئین یا آئینی دائرہ کار نہیں ان کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کا ساتھ دیا جائے) اور دوسری طرف وہ بین السطور اسی اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ن لیگ اور اتحادیوں کو اور کیا چاہیے؟
کیا عمران کو اس بات کا احساس ہے؟ کیا لا شعوری طور پروہ ن لیگ کی وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور انہیں خود سمجھ نہیں آ رہی ان کا حریف کون ہے؟ یا ان کے رفقا میں سے کوئی ہے جو انہیں اس طرف دھکیل رہا ہے؟
یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے گرد حفاظتی حصار قائم کرنے کے لیے وہ اسی کو ٹیسٹ کیس بنانا چاہتے ہوں اور انہیں اس بات سے کوئی غرض نہ ہو کہ اس کی زد میں ’کون‘ آتا ہے، شہباز شریف آتا ہے یا شہباز گل؟
شہباز گل بھی عمران خان کا ٹویٹ پڑھ کر سوچتے ہوں گے: ’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔